تنقید کی پروا نہیں، کشمیرایشو عالمی فورمز پر آج بھی کشمیر کمیٹی ہی کی وجہ سے برقرار ہے، آج تک طے نہیں کیا جاسکا کہ کشمیر کا حل فوجی ہے یا سیاسی ہے،پاکستان کو غیر ملکی ایجنڈے کےتحت کمزور کیا جارہا ہےکشمیر تنازع کا پرامن حل چاہتے ہیں۔مولانا فضل الرحمٰن

تنقید کی پروا نہیں، کشمیرایشو عالمی فورمز پر آج بھی کشمیر کمیٹی ہی کی وجہ سے برقرار ہے،
آج تک طے نہیں کیا جاسکا کہ کشمیر کا حل فوجی ہے یا سیاسی ہے،پاکستان کو غیر ملکی ایجنڈے کےتحت کمزور کیا جارہا ہےکشمیر تنازع کا پرامن حل چاہتے ہیں۔مولانا فضل الرحمٰن
ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیاان کا کہنا تھا کہ جمعہ کے روز ملک بھر میں بھارتی ظلم وستم پراحتجاج ہوگا، امریکا، اسرائیل اورانڈیا مردہ باد کا نعرہ لگے گا، بھیڑ کے لبادے میں چھپے لوگوں کو احتجاج پرتکلیف ہوگی، میں جانتا ہوںکہ پاکستان میں کون امریکا اوراسرائیل کا خیرخواہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد کشمیر کا لفظ ہی ہماری زبانوں سے مٹ گیا تھا، ہمارے ملکی ہوائی اڈے، فضاؤں کو امریکا کے حوالے کر دیا گیا، نائن الیون کے بعد ملک کی عزت اور وقار کو بیچ دیا تھا، مشرف نے یہ بھی کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو سائیڈ لائن کیا جا سکتا ہے
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 2008 کے بعد کشمیر کمیٹی میرے حوالے کی گئی، کمیٹی کی سربراہی ملنے کے بعد ہر فورم پر کشمیرکی بات کی جارہی تھی، آج وزیراعظم کہیں جاتے ہیں، تو کشمیر کی بات ہوتی ہے، وزیر خارجہ کشمیر کا مسئلہ اٹھاتے ہیں، یہ کشمیر کے حوالے اس کشمیر کمیٹی کا ہی کردار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں صرف چیئرمین کشمیر کمیٹی پرتنقید ہوتی ہے، مجھے تنقید کی پروا نہیں، مسلسل جدوجہد کرنے پر یقین ہے اگر کشمیر ایشو برقرارہے، تو یہ کشمیر کمیٹی کی کامیابی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا کیا حل ہے، ہم نے بھارت سے بھی کہا ہے کہ کشمیر کے فوجی حل سے باہر نکلے، بھارتی عوام حکومت پردباؤ ڈالیں تنازعے کے فوجی حل سے باز رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کیا اسی لئے ہے کہ تنقید ہو تو اسی پر ہو، مجھ پرہزار تنقید کریں، لیکن کشمیر پرجو یکجہتی ہے اس کااحترام کریں، سیاسی فریق بن کر کشمیرکاز کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں۔
مولانا کا مزیدکہنا تھا کہ صحیح پیرائے میں مسئلہ کشمیر کے اشاعت کی ضرورت ہے، کہا جاتا ہے کہ کشمیر کمیٹی کا اجلاس نہیں ہوتا کیا قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس نہیں ہوتا اس پرسوال نہیں اٹھتا، ہم معاملات کو سمیٹنا چاہتے ہیں، بکھیرنا نہیں چاہتے۔
صحافی کے سوال پر مولانا کا کہنا تھا کہ اگر ایک پارٹی کا کام ہی الزامات لگانا ہے صوبہ خیبر پختونخوا میں انکی حکومت ہے مگر آج تک ان کو ہمارے خلاف کچھ نہیں مل سکا ،ہم نے صاف ستھری سیاست کی ہے ،جب ہم امریکا اور اسرائیل کے خلاف بولتے ہیں تو پھرہمارے خلاف ذاتی تنقید کا سہارا لیا جاتا ہے۔