کراچی : جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن متحدہ مجلس عمل کے صدر اور جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ مرکزی سیکرٹری جنرل مقرر کر دیئے گئے جبکہ ایم ایم اے کے صدر مولانا فضل الرحمن نے اعلان کیا کہ آئندہ عام انتخابات متحدہ مجلس عمل کے ایک ہی پلیٹ فارم سے ، ایک منشور ، ایک نشان ، ایک جھنڈے اور ایک دستور کے تحت لڑا جائے گا ۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد کنونشن سینٹرمیں منشور اور آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا ۔ دستور کے مطابق دیگر جماعتوں سے انتخابی مفاہمت اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے دروازے کھلے رکھے جائیں گے ۔ مجلس عمل اپنی تمام توانائیاں ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ ، قومی مسائل کے حل ، اقلیتی اور محروم طبقوں سمیت تمام کے حقوق کا تحفظ اور ملک میں عوامی مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرے گی ۔ آج بروزمنگل جمعیت علماء اسلام کراچی کے تحت مولانا فضل الرحمن دامت برکاتہم کی میزبانی میں ڈیفنس میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے موقع پر مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا گیا۔سربراہی اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے امیرمولانا فضل الرحمن ، مولانا امجد خان ، الحاج اکرم خان درانی ، محمد اسلم غوری ،جماعت اسلامی کے سراج الحق ، لیاقت بلوچ ، پروفیسر ابراہیم ، اسد اللہ بھٹو، جمعیت علمائے پاکستان کے پیر اعجاز ہاشمی ، اویس نورانی ، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے علامہ ساجد میر ، اقتصام الہی ظہیر ، اسلامی تحریک پاکستان کے علامہ عارف حسین وحیدی ، علامہ شبیر میثمی اور دیگر نے شرکت کی ۔ سربراہی اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کا اعلان مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا گیا ۔ مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے فیصلوں سے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمن متحدہ مجلس عمل کے امیر ، جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ ایم ایم کے جنرل سیکرٹری ، جمعیت علمائے پاکستان کے صدر پیر اعجاز ہاشمی ، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ، اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ علامہ ساجد نقوی اور مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر پروفیسر ساجد میر نائب صدور ، جمعیت علمائے پاکستان کے سیکرٹری جنرل شاہ اویس نورانی سیکرٹری اطلاعات ، جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عبدالغفور حیدری ، جمعیت علمائے پاکستان کے محمد خان لغاری ، مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے شفیق پسروری اور اسلامی تحریک پاکستان کے علامہ عارف حسین وحیدی ڈپٹی سیکرٹری جنرل جبکہ اسلامی تحریک پاکستان کے علامہ شبیر میثمی مرکزی سیکرٹری مالیات ہوں گے ۔ ان کی سربراہی میں مالیات کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جبکہ پروفیسر علامہ ساجد میر کی سربراہی میں منشور کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ۔ لیاقت بلوچ نے اعلان کیا کہ اپریل کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد میں مرکزی کنونشن ہو گا ، جس میں منشور اور آئندہ کی حکمت عملی کا اعلان کیا جائے گا ۔ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم ایم اے کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ پوری قوم کو ایم ایم اے کی دوبارہ بحالی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ قومی سطح پر اس کی طلب اور آرزو محسوس کی جا رہی تھی ۔ آج پوری ہوئی ہے ۔ 2002 ء کی طرح تمام جماعتیں آج ایک منشور ، ایک دستور ، ایک نشان ، ایک جھنڈے اور ایک نصب العین کے تحت متحد ہیں ۔ ہماری کوشش ہو گی کہ قوم کی آرزوں اور خواہشات پر پورا اتریں ۔ متحدہ مجلس عمل ایک ایسا مذہبی اتحاد ہے ، جس نے 2002 میں اپنے قیام کے بعد کئی اہم مقاصد کیے ۔ اس اتحاد کو نہیں ٹوٹنا چاہئے تھا ۔ تاہم ایک مرتبہ پھر ہم نے نئے عزم کے ساتھ اس کی بحالی کی ہے اور اس میں تمام جماعتوں کی برابری کی بنیاد پر نمائندگی ہے اور فیصلے بھی اتفاق رائے سے ہوں گے ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ مرکزی باڈی تشکیل ہو گئی ہے ۔ اب صوبوں اور اضلاع کی سطح پر تنظیم سازی کی جائے گی تاکہ نچلی سطح پر کارکن اور ہمدرد مل بیٹھیں ۔ انہوں نے کہا کہ جلد صوبوں کو تنظیم سازی کا شیڈول دیا جائے گا اور اسلام آباد میں ہونے والے ورکرز کنونشن میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ہمارے ملک کی 21 کروڑ سے زائد آبادی کا بڑا حصہ یہ محسوس کرتا ہے ، جن مقاصد کے لیے پاکستان قائم ہوا تھا ، ان مقاصد کی تکمیل نہیں کی گئی ہے اور عوام میں بے چینی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک کو کئی مسائل درپیش ہیں ۔ ایک طرف لوگوں میں بے چینی ہے تو دوسری طرف چھوٹی چھوٹی بغاوتیں سر اٹھا رہی ہیں اور ریاست کے خلاف چھوٹے چھوٹے گروپ تشکیل دیئے گئے ہیں ۔ ہم سب نے مل کر ملک میں امن کے لیے حکمت عملی طے کرنی ہے ۔ ایم ایم اے ہر شخص کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے ۔ ہم اسلامی احکام کے مطابق لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں او رجو لوگ سختی یا شدت چاہتے ہیں ، ہم ان کی نفی کرتے ہیں ۔ ہم اس تصور کے ساتھ ایک نئے سفر کا آغاز کر رہے ہیں کہ ملک میں امن ہو ، معاشی بدحالی کا خاتمہ ہو ، سود کی لعنت سے نجات ملے اور بلا امتیاز تمام پاکستانیوں کے مسائل حل ہوں ۔ یہ ہمارے بنیادی اہداف ہیں ۔ ہم اقلیتوں سمیت تمام طبقوں کے حقوق کا تحفظ اور باعزت زندگی چاہتے ہیں ۔ اسی طرح ہم عالمی سطح پر امت مسلمہ کے اتحاد اور یکجہتی اور جبر کے خلاف جدوجہد کرنا چاہتے ہیں ۔ ہمارا مقصد عالمی جبر کی سپورٹ کرنے والی قوتوں کو شکست دینا اور مظلوموں کی آواز بننا ہے ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ آج پوری دنیا میں مسلمان مسائل کا شکارہیں ۔ ہم ان مظلوموں کی آواز بھی بننا ہے ۔ ہم ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے لڑیں گے ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ تمام فیصلے باہمی مشاوت سے ہوں گے اور دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں سے انتخابی مفاہمت کے دروازے کھلے ہیں ۔ اس کی پالیسی پہلے سے واضح ہے ، جو 2002 میں اختیار کی گئی تھی ۔ دیگر مذہبی جماعتوں یا گروپ پہلے بھی موجود تھے ۔ ان سے مشاورت کے لیے رابطہ کمیٹی قائم کی گئی ہے ۔ حکومتوں سے الگ ہونے کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماضی میں حکومتوں میں ہوتے ہوئے بھی ہم سب نے قانون سازی سمیت مختلف ایشوز پر نہ صرف ایک حکمت عملی اختیار کی بلکہ حکومتوں کے خلاف بھی گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ طے شدہ بات ہے کہ تمام جماعتیں جلد حکومتوں سے اپنے اپنے راستے الگ کریں گی ۔ ہم قومی وحدت اور امت وحدت پر یقین رکھتے ہیں ۔ آئندہ عام انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر کہاکہ ایم ایم اے کے دستور کے مطابق اس کا پورا فارمولا طے ہے اور اسی پر عمل ہو گا ۔ سراج الحق نے کہا کہ ہم ایک خوش حال پاکستان چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ قوم اسٹیٹس کو شدید مایوس ہے ۔ ہم اعلی اداروں میں عام لوگوں کے لیے دروازے کھولنا چاہتے ہیں ۔ مدینہ کی ریاست ہمارے لیے رول ماڈل ہے اور نظام خلافت ہمارا مشن ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان مشکلات کا بھی اندازہ ہے ۔ ہمارے خلاف ملک کے اندر اور ملک کے باہر بھی سازشیں ہون گی ۔ملکی سیاست پر قابض سازشیں قوتیں مذہبی قوتوں کو سامنے آتا ہوا نہیں دیکھ سکتیں ۔ انہوں نے اپیل کی ہے کہ تمام امن پسند اور جمہوری لوگ متحدہ مجلس عمل کے ساتھ کھڑے ہوں اور تعاون کریں ۔ قوم کو تقسیم در تقسیم کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنائیں گے اور انتشار کی ہر کوشش کو ناکاما بنائیں گے ۔ علامہ ساجد میر نے کہا کہ آج متحد مجلس عمل کا نئے سفر کا آغاز کراچی سے ہوا ہے ۔ اس سے قبل رسمی اعلان بھی کراچی میں ہوا تھا ۔ تمام فیصلے اتفاق رائے سے ہوئے ۔ پیر اعجاز ہاشمی نے کہاکہ تمام مسائل کا حل نظام مصطفی ہے ۔ متحدہ مجلس عمل ایک قوم کے ساتھ ساتھ ایک امت مسلمہ کے تصور کو بھی آگے لے کر بڑھے گی ۔ علامہ عارف حسین وحیدی نے کہاکہ ملک کی خدمت فرقہ ورانہ انتشار کے خاتمے کے لیے ہم سب مل بیٹھیں گے ۔
حکومت ایک بار پھر اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 میں ترمیم کرنے جا رہی ہے جس سے دفاعی اداروں کو بے پناہ اختیارات ملیں گے جو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر ہیں۔ پہلے نیب کے اختیارات پر اعتراض تھا اور ان میں کمی کی گئی تھی، لیکن اب دفاعی ادارے کو کسی کو شک کی بنیاد پر 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار دیا جا رہا ہے جو سراسر غیر جمہوری عمل ہے،ملک میں سول مارشل لاء کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ، جو جمہوریت اور “ووٹ کو عزت دو” کی بات کرتے ہیں، آج اپنے ہی ہاتھوں جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ 26ویں ترمیم میں کچھ شقیں واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی، لیکن یہ نیا ایکٹ اسی ترمیم کی روح کے خلاف ہے۔ یہ آئین اور پارلیمنٹ کی توہین ہے کہ ایک دن آپ ایک فیصلہ کریں اور اگلے دن اسے نظر انداز کر دیں۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان
فیصلے اجلاس مرکزی مجلس شوری جے یو آئی پاکستان
میں اداروں کا احترام کرتا ہوں لیکن میری نظرمیں بھی ان کی پالیسیاں سیدھی نظرآئیں، میں نے بھی چالیس سال صحراؤں میں گذارے ہیں، آنکھیں بند کر کے بات نہیں کر رہا بلکہ مشاہدات کے ساتھ بات کرتا ہوں،اگر ہم یہ بات نہیں کریں گے تو قوم کے ساتھ خیانت ہوگی،آپ اپنا قبلہ درست کریں ہم آپ کو سر کا تاج بنا لیں گے۔قوم کی قدر کریں، آپ کے کرنل اور میرے عام کارکن کے پاس ایک ہی شناخت ہے، دونوں کے لئے ایک ہی آئین ہے۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا ڈی آئی خان میں ورکرز کنونشن سے خطاب
43ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چھبیسویں آئینی ترمیم پر قومی اسمبلی میں تاریخی خطاب