کراچی :
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ عصری تعلیمی اداروں کے ڈگری ہولڈرزکے لئے تو نوکریاں نہیں ہیں اور دعویٰ کیا جارہا ہے کہ دینی مدارس کے فضلاءکو قومی دھارے میں شامل کرنا ہے، ہم انہیں کہتے ہیں کہ ہم توقومی دھارے میں ہیں اور آپ اسلامی دھارے میں شامل ہوجائیں ان خیالات کا ظہارانہوں نے جامعہ محمودیہ لیاری میں درس قرآن اور علماءکنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پرقاری شیرافضل خان، مولانا راشدمحمودسومرو،قاری محمد عثمان،مولاناعبدالکریم عابد،مفتی نورالحق،عبدالحق مخلص،مولاناعمرصادق اوردیگرعلماءکرام بھی موجود تھے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ عصری تعلیمی اداروں کے ڈگری ہولڈرزکے لئے تو نوکریاں نہیں ہیں اور دعویٰ کیا جارہا ہے کہ دینی مدارس کے فضلاءکو قومی دھارے میں شامل کرنا ہے، ہم انہیں کہتے ہیں کہ ہم توقومی دھارے میں ہیں اور آپ اسلامی دھارے میں شامل ہوجائیں۔ہم حکومت اور سول سوسائٹی سمیت تمام ان قوتوں کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ جو دینی مدارس اور طلباء کو قومی دھارے میں شامل کرنا چاہتے ہیں وہ پہلے اسلامی دھارے میں شامل ہوں ہم پہلے سے ہی قومی دھارے میں نہ صرف شامل ہیں بلک قومی دھارے کے علمبردار ہیں.
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی جماعت جلسوں میں ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتی مگر میڈیا نے تہیہ کر رکھا ہے کہ جے یو آئی کا پیغام عوام تک نہ پہنچے کیونکہ ہمارے پاس میڈیا کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، لیکن جب اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں ہماری محبت ڈالے گا تو اسٹیبلشمنٹ اورمیڈیا کچھ نہیں کرسکے گا،22مارچ کو ایک بارپھرکراچی میں اسلام زندہ باد کانفرنس میں جے یو آئی عوامی قوت کا مظاہرہ کرے گی جس کیلئے کارکن پھرپور محنت کریں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ قرآن پڑھنے اور پڑھانے والوں پر اللہ تعالٰی اپنی نعمتیں نازل فرماتا ہے اور سب سے پہلی نعمت سکون کی ہے، جس مجلس میں قرآن پڑھا جائے اللہ کی رحمت اس مجلس کو گھیر لیتی ہے، جب ہم اللہ کو اپنی مجلس میں یاد کرتے ہیں تو اللہ اپنی مجلس میں ہمیں یاد کرتے ہیں، ہم پاکستانیوں کا ایک دعوی ہے کہ پاکستان 27 رمضان کو وجود میں آیا اور قرآن بھی شب قدر کو نازل ہوا، ہم نے وجود پاکستان کو نزول قرآن سے جوڑ دیا ہے مگر 70 سال گزرنے کے باوجود قرآن و سنت کو اپنے لئے بطور مملکتی نظام کو قبول نہیں کیا،قرارداد مقاصد متفقہ آئین ہے، علماءنے اس میں اپنا کردار ادا کیا، 1973 کے آئین میں اسلام کو مملکتی نظام قرار دیا گیاکہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوگی، مگر اس کے باوجود اسلامی نظریاتی کونسل کی کسی ایک سفارش پر قانون سازی نہیں کی گئی، ایسا کرکے حکمرانوں نے آئین کی نفی کی ہے،اگر ہم اسی طرح اللہ کے قانون کو توڑتے رہیں گے تو کس طرح خوشحالی آئے گی؟نہ صرف پاکستان بلکہ پورا عالم اسلام مسائل و مشکلات کا سامنا کررہا ہے یہ اس لئے کہ ہم نے اللہ کی دی ہوئی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ نے بھوک اور بے روزگاری ہم پر مسلط کردی. انہوں نے کہا کہ میڈیا ہمیں کبھی ٹھیک طرح پیش نہیں کرتا. کہا جاتا ہے کہ مولوی اسلام کو سیاست کے لئے استعمال کرتا ہے، سیاست کس زبان کا لفظ ہے شاید یہ لوگ نہیں جانتے، ہمیں سیاست کا مقصد قرآن و حدیث سے ملا ہے، اگر سیاست کا مقصد جھوٹ، کرپشن کا ہے تو اس کا ہمیں نہیں پتہ لیکن اگر سیاست قوم کی خوشحالی ہے تو پھر یہ ہمارا کام ہے،جے یو آئی کسی مسلک کی نمائندگی نہیں کرتی ہے ہم ملک کی سطح پر پوری قوم کی آواز ہیں اور اسلام کے وسیع نظرئیے پر کاربند ہیں، سیاست ترجیحات کا نام ہے۔ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ سینیٹ انتخابات کیلئے منڈیاں لگی ہوئی ہیں اور گھوڑے خریدے جارہے ہیں ،سینیٹ انتخابات کا یہ منظرپاکستان کے لئے باعث عارہے، منڈی میں ووٹ بیچنے والے لوگ ہمارے لئے کیسے قانون سازی کریں گے، اس کا نوٹس لیناچاہئے اور سینیٹ الیکشن بروقت اور شفاف ہونے چاہئیے ۔متحدہ قومی موومنٹ کی تقسیم اندرونی معاملہ ہے جس پر تبصرہ مناسب نہیں۔صحافی کے سوال کرنے پرمولانانے عمران خان کی شادی کے اعلان پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریزکیااورکہاکہ یہ ان کا خاندانی معاملہ ہے۔
جمعیت علماءاسلام پاکستان کا اعلیٰ سطح وفد کابل پہنچ گیا
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا موجودہ ملکی صورتحال پر سلیم صافی کے ساتھ جرگہ پروگرام میں گفتگو
سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی بل ایکٹ بن چکا، گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے، کیا آئی ایم ایف کی ہدایات پر ہماری قانون سازی ہوگی؟ اب مدارس کو کس چیز کی سزا دی جا رہی ہے، اتفاق رائے ہو چکا تو پھر اعتراضات کیوں، یہ راز آج کھلا کہ ہماری قانون سازی کسی اور کی مرضی کے مطابق ہو گی، کہہ دیا جائے ہم آزاد نہیں ہیں، غلام ہیں۔ مولانا فضل الرحمان
اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کا جامعہ عثمانیہ اسلام آباد میں اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس
مدارس کے حوالے سے جو ایکٹ پاس ہو چکا ہے اس کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے، ہم نے طے کر لیا ہے کہ معاملات یکسو نہیں کیے گئے تو احتجاج کریں گے، اسلام جانا پڑا تو جائیں گے۔علما سے کوئی اختلاف نہیں، ہماری شکایت صرف ایوان صدر اور صدر مملکت سے ہے۔