جمعیت علماءاسلام کی جانب سے سرینا ہوٹل اسلام آباد میں یورپی ممالک کے سفراء کے اعزازمیں ظہرانہ
قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن مدظلہ ، ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری مدظلہ،سینیٹر طلحہ محمود ودیگر قائدین شریک
……………………………………………………………………………………….
دین اسلام کی بنیاد انسانیت کی فلاح وبہبود ہے ۔اس کا تعلق کسی خاص علاقے ،قبیلے ،قومیت اور زمانے سے نہیں ۔ہم اقوام عالم کے ساتھ مثبت تعلقات کے خواہاں ہیں ۔ہمیں مغرب کے علوم اور ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانا چاہئے جبکہ مغرب کو مسلمانوں کے علوم اور ٹیکنا لوجی سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ۔جے یو آئی سمیت تمام مکاتب فکر نے ہمیشہ دہشت گردی کی مذمت کی ہے ، جو بھی امریکی پالیسی سے اختلاف کر تا ہے امریکہ اسے دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال دیتا ہے۔جمعیۃ علماء کی بنیاد فلسفہ عدم تشدد پر رکھی گئی۔ہم خو د بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا رہے ہیں اور سوسالہ اجتماع میں اسی فلسفے کو آنے والی نسلوں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔اسلام کی بنیاد فرقہ واریت پر نہیں بلکہ وسیع اور آفاقی تصور کے ساتھ اپنے پروگرام کو انسانیت کی بھلائی کیلئے پیش کیا ہے ، مغرب نے طاقت کے زور پر دنیا پر قبضے کارواج 1945ء کے بعد ختم کیا، جبکہ جمعیۃ علماء نے1919ء سے ہی فلسفہ عدم تشددکو اپنایا۔جمعیۃ علما ء اسلام پاکستان کی سب بڑی اور مضبوط سیاسی جماعت ہے۔مدارس ومساجد کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنا درست نہیں۔
ان خیالات کا اظہار جمعیۃ علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے یورپی یونین کے سفراء ،ہائی کمشنرزکو صدسالہ عالمی اجتماع کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔دریں اثناء ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبد الغفور حیدری نے یورپی یونین کے سفراء وہائی کمشنر زکاان کی دعوت پر تشریف آوری پر شکریہ اداکرتے ہوئے ان کاخیر مقدم کیا۔واضح رہے کہ اس موقع پر شرکاء کے اعزاز میں ظہرانہ دیا گیا ۔ بریفنگ میں یورپی یونین کے ممالک جرمنی ،بلغاریہ ،پرتگال،پولینڈ،سپین،فن لینڈ، رومانیہ،آسٹریا کے سفراء وہائی کمشنرز نے شرکت کی ۔ ڈپٹی چیئرمین مولانا عبد الغفورحیدری،سینیٹر مولانا عطاء الرحمن،سینیٹر محمد طلحہ محمود،مولانا امجد خان،مولانا راشد محمود سومرو،محمد اسلم غوری مفتی ابراراحمد، مفتی صلاح الدین ،مدیر الجمعیۃ مفتی محمد زاہد شاہ نے مہمانوں کا استقبال کیا۔جبکہ قائدجمعیۃ کے صاحبزادے حافظ اسجد محمود نے پرسوز آواز میں تلاوت کلا م پاک کی۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب