پشاور:
جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے صوبائی سیکرٹریٹ پشاور میں صوبائی جنرل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت علماء اسلام کی عوامی پزیرائی کی وجہ سےملکی سطح پر اسکی رائے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جمعیت علماء اسلام ملکی اور بین الاقومی سطح پر ایک مسلمہ حقیقت ہے جمعیت کے کارکن اور عہدیدار نے دن رات محنت کرکے جمعیت کے فکر اور نظریہ کو امت مسلمہ بلکہ بلکہ پوری انسانیت کیلئے نوید ثابت ہو ئی ہے اور دنیا میں اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دینے سے عالمی اجتماع کی کامیابی نے اہم رول ادا کیا ہے انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام کسی حادثہ کی پیداوار نہیں بلکہ مسلسل تاریخی جدوجہد اور سینکڑوں سال کی تاریخ رکھتی ہے پشاور کی سرزمین جدوجہد کا ثمرہ ہے انہوں نے کہا کہ عام انتخابات میں ہمارا راستہ روکنے کی سازش کی گئی ہیں اور مسلسل انتخابات میں ہماری جیت کو ہار میں تبدیل کیا گیا علما ء کے لبادے میں کچھ قوتوں کو متحرک کرکے جمعیت علماء اسلام اور اسکی قوت کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے اور اس سلسلے میںتجوریوں کے منہ کھول دئیے گئے ہیں اعزازیہ کے نام پر علماء کوخریدنے کے بین الاقوامی ایجنڈے پر عمل پیرا صوبائی حکومت اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہو گی، اور ایسے اقدامات کی مزاحمت کرینگے انہوں نے کہا کہ آئندہ عا م انتخابات جمعیت علماء اسلام کے لئے ایک بڑا چیلنچ ہے اور اس کے لئے کارکنوں کو ابھی سے صف بندی کرنی ہے بھر پور حکمت عملی کے تحت میدان عمل میں اترنا پڑیگا، انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام آئین اور جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہے لیکن اس کے باوجود علماء کرام اور جمعیت علماء اسلام کے رہنماؤں کو شیڈول 4میں ڈالا جارہا ہے ، انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام فورشیڈول کی پرواہ کئے بغیر جماعتی نظم ونسق کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھیں، انہوں نے کہا کہ علماء شدت پسند نہیں حکمران استعمار کے آگے اتنے جھک گئے ہیں کہ انھیں علماء شدت پسند نظر آرہے ہیں مغرب کی تابعداری اور یہود ونصاریٰ کی پیروی کرتے ہوئے شرم نہیں آتی، اپنے گناہوں اور چاپلوسی کو چھپانے کیلئے علماء کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے انہوں نے کہا کہ فاٹا کے مستقبل کے حوالہ سے حکمران قبائل عوام کو نظر انداز کرکے اپنا فیصلہ مسلط کرنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں، انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اور اسکے قائدین جمہوریت کا چمپئین کہلانے والی جماعتیں آج عوام کی رائے کو نظر اندا زکرکےبیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، کشمیر ، گلگت بلتستان کے مستقبل کیلئے قوم کی رائے لیجاتی ہے لیکن قبائل کے عوام کی رائے کو کیوں اہمیت نہیں دی جاتی ، قبائلی عوام اپنی زمین پر کسی دوسرے کا فیصلہ قبول نہیں کرینگے، انہوں نے کہا کہ قبائل کے مستقبل کے حوالہ سے اسمبلی سے قانون منظور کرنے میں عجلت کی گئی اور چوری چھپے اسمبلی میں قانون لایا گیا اور سپیکر نے ارکان اسمبلی کو یقین دلایا کہ فاٹا کا ایجنڈا آج پیش نہیں ہو گا لیکن اس کے باوجو جمعیت نے ترمیم پیش کی لیکن بل کو منظور کیا گیا ہم انضمامی ایجنڈے کے علاوہ تمام تر اصلاحات اور اقدامات کے حق میں ہیں، انھوں نے کہا کہ انظمام کے حوالہ سے حکومتی اقدمات امریکی ایجنڈے کا حصہ ہے حکومت امریکی دباؤمیں آکر اس قسم کے اقدامات کر رہی ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت نے قبائلی عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے انضمام کا فیصلہ واپس لے لیا ہے یہ عوام کی فتح ہے حکومت نے سپریم کونسل کی تجاویز بل میں شامل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، انہوں نے کہا کہ ایم ایم اے کے حوالہ سے جمعیت علماء اسلام نے سب سے پہلے اقدام اٹھا کر قائدین کو اکٹھا کیا اور اسکی بحالی کیلئے مشترکہ اجلاس بلاکر اصولی طور پر بحالی کا فیصلہ کیا گیا، انہوں نے کہا کہ مولانا سمیع الحق صاحب ایم ایم اے کی بحالی سے متعلق تمام اجلاسوں میں شریک ہونے کے باوجود اچانک انکا فیصلہ حیران کن تھا ، انہوں نے کہ کہ علماء کرام کو اعزازیہ کا اعلان ایک ایجنڈے کا حصہ ہے ، صوبہ بھر کے علماء کرام نے اس کو مسترد کرکے جرات مندانہ فیصلہ کیا ہے ، انہوں نے کہا کہ اس قسم کے اقدامات سے متعلق 2013کے انتخابات کے بعد مجھے آگاہ کیا گیاتھا کہ علماء کرام کو خریدنے کیلئے فنڈز آئے ہیں اورآپ اکیلے رہ جائینگے،انہوں نے کہا کہ ان قوتوں نے مجھے بہت پیش کش کی لیکن الحمد للہ اس کو ٹھکرا کر علماء کی عزت اور وقار میں اضافہ کیا ہے،قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پختون بیلٹ میں مذہب کی جڑیں گہری ہیں اور اس جڑوں کو کھوکھلا کرنے کیلئے کروڑوں ڈالر این جی اوز کے زریعے تقسیم کئے جارہے ہیں، انہوں نے کہا کہ مذہبی جوانوں کو اشتعال میں لاکر اپنے عزائم کی تکمیل کرنے والے علماء کرام کو خرید نہیں سکتے علماء کو خریدنے کے تمام حربے ناکام ہو چکے ہیں ۔ علماء کرام،آئمہ کرام یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان عزائم کے خلاف ڈٹ جائیں، اور اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔
حکومت ایک بار پھر اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 میں ترمیم کرنے جا رہی ہے جس سے دفاعی اداروں کو بے پناہ اختیارات ملیں گے جو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر ہیں۔ پہلے نیب کے اختیارات پر اعتراض تھا اور ان میں کمی کی گئی تھی، لیکن اب دفاعی ادارے کو کسی کو شک کی بنیاد پر 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار دیا جا رہا ہے جو سراسر غیر جمہوری عمل ہے،ملک میں سول مارشل لاء کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ، جو جمہوریت اور “ووٹ کو عزت دو” کی بات کرتے ہیں، آج اپنے ہی ہاتھوں جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ 26ویں ترمیم میں کچھ شقیں واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی، لیکن یہ نیا ایکٹ اسی ترمیم کی روح کے خلاف ہے۔ یہ آئین اور پارلیمنٹ کی توہین ہے کہ ایک دن آپ ایک فیصلہ کریں اور اگلے دن اسے نظر انداز کر دیں۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان
فیصلے اجلاس مرکزی مجلس شوری جے یو آئی پاکستان
میں اداروں کا احترام کرتا ہوں لیکن میری نظرمیں بھی ان کی پالیسیاں سیدھی نظرآئیں، میں نے بھی چالیس سال صحراؤں میں گذارے ہیں، آنکھیں بند کر کے بات نہیں کر رہا بلکہ مشاہدات کے ساتھ بات کرتا ہوں،اگر ہم یہ بات نہیں کریں گے تو قوم کے ساتھ خیانت ہوگی،آپ اپنا قبلہ درست کریں ہم آپ کو سر کا تاج بنا لیں گے۔قوم کی قدر کریں، آپ کے کرنل اور میرے عام کارکن کے پاس ایک ہی شناخت ہے، دونوں کے لئے ایک ہی آئین ہے۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا ڈی آئی خان میں ورکرز کنونشن سے خطاب
43ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چھبیسویں آئینی ترمیم پر قومی اسمبلی میں تاریخی خطاب