جمعیت علماء اسلام کی مرکزی کمیٹی کا 2روزہ اجلاس مولانا فضل الرحمان امیر جمعیت علماء اسلام کی صدارت میں صوبائی سیکرٹریٹ پشاور میں منعقد ہوا جسمیں ارکان کمیٹی مولانا عبدالغفورحیدری ڈپٹی چئیرمین سینٹ ، سندھ سے علامہ راشد محمود سومرو، قاری محمد عثمان، اسلم غوری ، عبدالرزاق لاکھو، آغا محمد ایوب، صوبہ پنچاب سے مولانا اسعدمظہری، ندیم اقبال اعوان، بلوچستان سے مولانا فیض محمد خان، صوبہ خیبر پختونخوا سے مولانا گل نصیب خان، مولانا عطاء الرحمان، عطاء الحق درویش، شمس الرحمان شمسی ، مولانا رفیع اللہ قاسمی، عبدالجلیل جان ، حاجی اسحاق زاہد، مفتی محمد اعجاز شنواری، مولانا عزیز احمد اشرفی، آزاد کشمیر سے مفتی امتیاز عباسی اور دیگر ارکان نے شرکت کی، اجلاس کے فیصلوں کا اعلان کرتے ہوئے مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان نے بیرون ملک سعودی عرب، امارات، قطر، ہندوستان، بنگلہ دیش، نیپال، جنوب افریقہ، برطانیہ، انڈونیشیا، ملائیشیا سے آنے والے مہمانوں اور پاکستان میں موجود اسلامی ممالک کے سفراء اور سیاسی ومذہبی جماعتوں کے قائدین صدر پاکستان وزیراعظم کو اجتماع میں شرکت کی دعوت اور دیگر اہم امور سے متعلق اجلاس کو تفصیل سے آگاہ کیا ، مولانا عبدالغفور حیدری نے بیرون ملک کے دورں اور ملک بھر میں عالمی اجتماع کے حوالہ سے تنظیمی سرگرمیوں اور دیگر اہم امور سے متعلق اجلاس کو آگاہ کیا، اجلاس میں مولانا گل نصیب خان30دسمبر 2016 سے 24مارچ تک عالمی اجتماع کے پنڈال ، سٹیج کی تیاریوں، مہمانوں کی آمد اور انکی رہائش اور آئندہ کے اقدامات سے اجلاس کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ انشاء اللہ 2اپریل تک سٹیج اور پنڈال اور قیام گاہیں ہر صورت مکمل ہو جائینگی،سیکوری سالار عبدالرزاق لاکھو نے سیکورٹی سے متعلق اجلاس کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ملک بھر سے 25000ہزار رضاکار عالمی اجتماع کی سیکورٹی کے فرائض انجام دینگے، صوبہ خیبر پختونخوا سے 10000، سندھ ، پنچاب اور بلوچستان سے 5،5ہزار مقامی پولیس اور دیگر اداروں کے ساتھ ملکر سیکورٹی کی زمہ واریاں ادا کرینگے،انھوں نے کہا کہ پنڈال میں CCTVکیمریں بھی نصب کئے جائینگے اور 6عدد چوکیاں بھی قائم کی جائینگی، جبکہ ٹریفک نظام کو کنٹرول کرنے اور سیکورٹی کے نظا م کو مزید مستحکم کرنے کیلئے موٹر وئے پولیس، ٹریفک پولیس، اور سیکورٹیکے اداروں کے ساتھ مل کر پلان تیار کیا جارہا ہے، جمعیت علماء اسلام کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات عبدالجلیل جان نے میڈیا کوریج، میڈیا ہاوسز، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا کے حوالہ سے اب تک ہونے ہوالے اقدامات سے اجلاس کو آگاہ کیا، جبکہ محمد اعجاز شنواری نے کینٹین اور سٹالز کے متعلق ہونیوالے انتظامات سے کمیٹی کو تفصیلی بریفینگ دی، اجلاس کے فیصلے کے مطابق مولانا عبدالغفور حیدری کی نگرانی میں چاروں صوبوں کے نظماء مولانا شجا ع الملک، علامہ راشد سومرو، مظہر اسعدی، ملک سکندر، مولانا امجد خان اور مولانا گل نصیب خان پر مشتمل سٹیج کمیٹی قائم کی گئی، جبکہ بیرون ممالک سے آنے والے مہمانوں کیلئے اکرم خان درانی، سینٹر طلحہ محمود، مولانا سعید یوسف، مولانا عطاء الرحمان، مفتی ابرار پر مشتمل استقبالیہ کمیٹی قائم کی ، صوبائی سیکرٹری اطلاعات عبدالجلیل جان کی سربراہی میں مرکزی میڈیا کمیٹی قائم کی گئی جس کے ارکان مرکزی معاون سیکرٹری اطلاعات مولان اصلاح الدین، بلوچستان سے عبدالباری اچکزئی، سند سے قاری محمد عثمان، اسلم غوری، آغا ایوب، پنچاب سے اقبال اعوان اور اسلام آباد سے مفتی ابرار پشاور سے شمس الرحمان شمسی ہو نگے.
اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے، صہیونی قوتوں نے اسلام کو دہشت گردی کی آڑ میں متنازعہ بنانے کی ناکام کوشش کی ہے، اسلام کی اصلی روح عالمی اجتماع کا ایجنڈا ہے ، امت مسلمہ اور عالم اسلام کی حقیقی رہنمائی کا حق ادا کررہے ہیں، ان خیالات کا اظہار جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان نے مرکزی کمیٹی کے 2روزہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، انھوں نے کہا کہ کچھ قوتوں عالمی ایجنڈے کے تحت اسلام اور پاکستان کی سلامتی کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں عالمی اجتماع میں پوری قوم کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشوں کو ناکام بنادینگے، انھوں نے کہا کہ عالمی اجتماع پوری انسانیت کیلئے امن یکجہتی اور مظلوم قوتوں کیلئے نوید انقلاب ثابت ہو گا، انہوں نے کہا کہ اسلام کو متازعہ بنانے والی قوتیں عالمی ایجنڈے پرعمل پیرا ہیں، اور دھشت گردی کی آڑ میں اسلام کی اصل روح کو شبوثاز کرنے اور بدنام کرتے پر تلی ہوئی ہیں، انھوں نے کہا کہ عالمی اجتماع میں اسلام کی اصلی روح کو اجاگر کیا جائیگا، اور عالمی ایجنڈے کے خلاف پوری قوم اور بین الاقوامی شخصیات امن یکجہتی کے فروغ کیلئے متحد ہونے کے عہد کی تجدید کرسگی، مرکزی کمیٹی سے مولانا عبدالغفور حیدری نے بھی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی اجتماع کی تیاریاں عروج پر پہنچ گئی ، 7,8,9اپریل کو دنیا بھر اور پاکستان بھر سے لاکھوں کی تعداد میں زندہ دلان اسلام کی شرکت سے اسلام دشمن قوتوں کے عزائم زمین بوس ہو جائینگے، مرکزی کمیٹی کیا رکان نے مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں عالمی اجتماع کے پنڈال کا دورہ بھی کیا۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب