کراچی :
قائد ملت اسلامیہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ایم ایم اے کی بحالی بھی پاکستان کے اندر مختلف مسائل ا ور انتشار سے اس قوم کو نکالنے کا حدف ہے ۔ایک جماعت کی جانب سے علماء کو تنخواہ کی لالچ دراصل گڑ میں زہر ملا کر دینے کے مترادف ہے ۔باطل نظریات پر قائم جماعت کا کوئی جزوی درست فیصلہ اس کے باطل نظریات کو درست ثابت نہیں کرسکتا ہے۔کسی بھی ریاست کے استحکام کی اصل بنیاد امن اور معیشت کی بہتری ہے ۔ہم آج نہیں مسائل سے دوچار ہیں کہیں یہ مشکلات اللہ تعالیٰ کے احکام اور رسول ﷺ کی سیرت طیبہ کی نافرمانی کا نتیجہ تو نہیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے رات گئے جامعہ صفہ بلدیہ ٹاؤن میں دارلحدیث کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری،جمعیت علماء اسلام کے رہنماء مولانا راشد محمود سومرو، قاری محمد عثمان ،سابق رکن سندھ اسمبلی مولانا عمر صادق،حافظ محمد نعیم ، جامعہ صفہ کے مہتمم مولانا قاری حق نواز، نائب مہتمم اور معروف مذہبی اسکالر مفتی محمد زبیر ، مفتی محمد شعیب اور دیگر علماء کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔ مولانا فضل الرحمن نے جامعہ صفہ کے جدید درالحدیث میں علماء طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب قر آن و حدیث کا علم حاصل کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے سکینہ اور اطمینان حاصل ہوتا ہے جو متضاد ہے اضطراب اور عدم اطمینان کا ۔قرآنی احکام کے مطابق وحی کی رہنمائی نہ ہوتو عقل اندھی ہوتی یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اغیار کے کئی عقل پر مبنی تیار منصوبے ناکام ہوتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ تمام مسائل کا ذمہ دار صرف حکمرانوں اور ذمہ داروں کو قرار دینا مناسب نہیں ۔فرد کو بھی اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ مسلمان روحانی طور پر ایک قبیلہ ہے جس کی کوئی جغرافیہ حد بندی نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ قومییت کا تصور قرآنی احکام کے خلاف نہیں مگر جب اس میں مادیت پرستی اور عصبیت کا عنصر شامل ہوجائے اور روحانیت کو پسے پشت ڈالا جائے تو پھر یہ غلط اور قرآنی اصولی کے خلاف ہے ۔انہوں نے کہا کہ مدارس کے حوالے سے دنیا بھر میں پروپگنڈہ کیا جارہا ہے حالانکہ مدارس میں علماء نسل انسانی کی تربیت کرتے ہیںا ور بقاء انسانیت کی تعلیم دیتے ہیں شاید اغیار کو یہی اداپسند نہیں ہے اسی لئے پوری دنیا حکومتیں مدارس کے خلاف پورپگنڈہ میں شریک اور اہل مدارس سے بے زار نظر آتی ہیں ۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کسی بھی ریاست کے استحکام اور بقاء کے لئے امن اور معیشت کی بہتری سب سے پہلی بنیاد ہے ۔آج ہم جس بے روز گاری بد امنی اور خلفشار کا شکار ہیں کہیں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے انکار کا نتیجہ تو نہیں۔کسی بھی اسلامی ریاست میں شریعت کے متصادم کوئی قانون نہیں بن سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر کسی جماعت کی بنیاد جامع اور اسلامی نظریہ کی بنیاد پر ہو اگر اس سے غیر دانستہ جزوی کوتاہی ہو بھی جائے تو اس کی اصلاح کی گنجائش ہے لیکن جس جماعت کی بنیاد باطل نظریے پر قائم ہو اس کا جزوی درست اقدام بھی باطل کے فروغ اور معاون ثابت ہو سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام نے ہمیشہ اہل مذہب ،مدارس ،مساجد کی جنگ لڑی ہے مگر کچھ لوگ آج سرکاری تنخواہ کے نام پر علماء کو دست وگریباں اور اکابر سے بد ظن کرنا چاہتے ہیں ان کا یہ عمل گڑ میں زہر ملا کر پینے کے مترادف ہے ۔اس جماعت کا مدارس کو تباہ کرنے کے لئے علماء کو تنخواہ دینے کے پروپگنڈہ میں مصروف ہیں علماء اس سے خود کو بچائیں۔ مولانا فضل الرحمن نے ایم ایم اے کی بحالی کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جب قوموں اور ملکوں پر مشکل آتی ہے تو اجتماعی جدو جہد ہی قوموں اور ممالک کو مشکلات سے نکال سکتی ہے ۔ جب کسی محلے میں کوئی آگ لگ جاتی ہے تو یہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ یہ گھر کس کا ہے بلکہ سب ملکر اس آگ کو بجھاتے ہیں۔ ایم ایم اے کی بحالی بھی پاکستان کے اندر مختلف مسائل ا ور انتشار سے اس قوم کو نکالنے کا حدف ہے۔
حکومت ایک بار پھر اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 میں ترمیم کرنے جا رہی ہے جس سے دفاعی اداروں کو بے پناہ اختیارات ملیں گے جو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر ہیں۔ پہلے نیب کے اختیارات پر اعتراض تھا اور ان میں کمی کی گئی تھی، لیکن اب دفاعی ادارے کو کسی کو شک کی بنیاد پر 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار دیا جا رہا ہے جو سراسر غیر جمہوری عمل ہے،ملک میں سول مارشل لاء کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ، جو جمہوریت اور “ووٹ کو عزت دو” کی بات کرتے ہیں، آج اپنے ہی ہاتھوں جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ 26ویں ترمیم میں کچھ شقیں واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی، لیکن یہ نیا ایکٹ اسی ترمیم کی روح کے خلاف ہے۔ یہ آئین اور پارلیمنٹ کی توہین ہے کہ ایک دن آپ ایک فیصلہ کریں اور اگلے دن اسے نظر انداز کر دیں۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان
فیصلے اجلاس مرکزی مجلس شوری جے یو آئی پاکستان
میں اداروں کا احترام کرتا ہوں لیکن میری نظرمیں بھی ان کی پالیسیاں سیدھی نظرآئیں، میں نے بھی چالیس سال صحراؤں میں گذارے ہیں، آنکھیں بند کر کے بات نہیں کر رہا بلکہ مشاہدات کے ساتھ بات کرتا ہوں،اگر ہم یہ بات نہیں کریں گے تو قوم کے ساتھ خیانت ہوگی،آپ اپنا قبلہ درست کریں ہم آپ کو سر کا تاج بنا لیں گے۔قوم کی قدر کریں، آپ کے کرنل اور میرے عام کارکن کے پاس ایک ہی شناخت ہے، دونوں کے لئے ایک ہی آئین ہے۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا ڈی آئی خان میں ورکرز کنونشن سے خطاب
43ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چھبیسویں آئینی ترمیم پر قومی اسمبلی میں تاریخی خطاب