اسلام آباد :
قائد ملت اسلامیہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ فاٹا اصلاحات کے حوالے سے قبائلی عوام کو دباؤ میں نہیں لایا جا سکتا اور اپنی سرزمین پر قبائل اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں گے
اسلام آباد میں فاٹا سپریم کونسل کے زہر اہتمام احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ 2001 میں امریکا کی غلامی کا فیصلہ غلط تھا، میں اس وقت بھی ڈٹ گیا تھا اور جیل برداشت کی تھی
مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ کل بھی میرا موقف تھا کہ قبائل کی اپنی شناخت ہے، اور آج بھی قبائلی عوام کے ساتھ کھڑا ہوں۔ انہوں نے سوال کیا کہ گلگت بلتستان کو مقامی حکومت دی جا سکتی ہے تو قبائلی علاقوں کو کیوں نہیں؟
انہوں نے قبائلی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم تحریک ہیں جو رکا نہیں کرتیں، ہوا کسی کا حکم نہیں سنتی اور حاکم ہواؤں کو مٹھی میں بند نہیں کر سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ قبائلی عوام ان کے فیصلوں سے مطمئن نہیں ہیں، کچھ لوگ کسی کی شاباش کے لئے بیٹھے ہیں لیکن جبر نہیں چلے گا۔
قبائلیوں نے فوج کے لیے قربانیاں دیں اور آج پُرامن قوم کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ آگ کی طرف جائیں۔ پارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے مگر ملک کی حیثیت کو ختم نہیں کر سکتی اس لئے اس مسئلے کو سنجیدہ لینا ہوگا
اس موقع پر فاٹا سپریم کونسل کی تمام قیادت نے مولانا فضل الرحمان کی کاوشوں کو سراہا اور ان کے شانہ بشانہ چلنے کا عزم کیا
جمعیت علماءاسلام پاکستان کا اعلیٰ سطح وفد کابل پہنچ گیا
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا موجودہ ملکی صورتحال پر سلیم صافی کے ساتھ جرگہ پروگرام میں گفتگو
سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی بل ایکٹ بن چکا، گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے، کیا آئی ایم ایف کی ہدایات پر ہماری قانون سازی ہوگی؟ اب مدارس کو کس چیز کی سزا دی جا رہی ہے، اتفاق رائے ہو چکا تو پھر اعتراضات کیوں، یہ راز آج کھلا کہ ہماری قانون سازی کسی اور کی مرضی کے مطابق ہو گی، کہہ دیا جائے ہم آزاد نہیں ہیں، غلام ہیں۔ مولانا فضل الرحمان
اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کا جامعہ عثمانیہ اسلام آباد میں اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس
مدارس کے حوالے سے جو ایکٹ پاس ہو چکا ہے اس کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے، ہم نے طے کر لیا ہے کہ معاملات یکسو نہیں کیے گئے تو احتجاج کریں گے، اسلام جانا پڑا تو جائیں گے۔علما سے کوئی اختلاف نہیں، ہماری شکایت صرف ایوان صدر اور صدر مملکت سے ہے۔