حکومت نے جو آج کچھ علماء کرام کا اجلاس بلایا ہے یہ درحقیقت ملک میں علماء کو آپس میں تقسیم کرنے کی ایک سازش ہے۔ اور ہم ان علماء کو بھی اپنے علماء سمجھتے ہیں۔ اپنے احباب سمجھتے ہیں۔ اپنے صف کے لوگ سمجھتے ہیں۔ لہٰذا ایک بات تو بڑی واضح ہونی چاہیے کہ ہم اگر دینی مدارس کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں اور دینی مدارس کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں تو وہ صرف اپنے پانچ بڑے تنظیمات کے حوالے سے نہیں بلکہ ملک کے ایک ایک مدرسے اور مدرسے میں پڑھنے والے ایک ایک طالب علم اور پڑھانے والے ایک ایک استاد کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کے حق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

ہمیں دھمکیاں مت بھیجا کرو وردی والو، ایجنسیوں والو ہمیں دھمکیاں مت بھیجا کرو دھمکیوں سے ہم ڈرتے نہیں ہم بگڑتے ہیں، ہم تو تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں ہم نے تو ان جیالوں کو قابو رکھا ہوا ہے اور اگر ہم نے آنے کا فیصلہ کیا تو تمہاری گولیاں ختم ہو جائیں گی ہمارے سینے ختم نہیں ہوں گے ان شاءاللہ، دھمکیاں نہ بھیجا کرو شرافت سے رہو گے تو شرافت سے رہیں گے بدمعاشی کرو گے تو ہم سے بڑا بدمعاش بھی کوئی اور نہیں ہوگا۔

ہم نے مدرسہ کو آئین کے ساتھ کھڑا رکھنے کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں، لیکن آج ریاست مدرسہ کو انتہا پسندی اور شدت پسندی کی طرف لے جانے پر مجبور کر رہی ہے، اور ہمارا چہرہ بدنما بنا کر پیش کرنے کے منصوبہ بنائے جارہے ہیں،ریاست نے خود مدارس کے خلاف محاذ کھڑا کیا ہے لیکن ہم مدارس کے بقاء کی جنگ لڑتے رہیں گے۔ انشاءاللہ

میں جرنیلوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وردی پہن کر اور سونے کے بلے لگا کر اگر اپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ پ پاکستان کو خوبصورت وطن بنا سکیں گے،اسٹیبلشمنٹ ،پاکستان کی متکبر بیوروکریسی ، پاکستان کے مفاد پرست طبقے اورسیاست دانوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ اب آپ کے بس میں پاکستان کی خوشحالی نہیں ہے اب تم راستے سے ہٹ جاؤ ہم انشاءاللہ پاکستان کو اللہ کے فضل و کرم سے ایک خوشحال اور مستحکم سرزمین بنائیں گے ۔

حکومت ایک بار پھر اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 میں ترمیم کرنے جا رہی ہے جس سے دفاعی اداروں کو بے پناہ اختیارات ملیں گے جو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر ہیں۔ پہلے نیب کے اختیارات پر اعتراض تھا اور ان میں کمی کی گئی تھی، لیکن اب دفاعی ادارے کو کسی کو شک کی بنیاد پر 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار دیا جا رہا ہے جو سراسر غیر جمہوری عمل ہے،ملک میں سول مارشل لاء کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ، جو جمہوریت اور “ووٹ کو عزت دو” کی بات کرتے ہیں، آج اپنے ہی ہاتھوں جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ 26ویں ترمیم میں کچھ شقیں واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی، لیکن یہ نیا ایکٹ اسی ترمیم کی روح کے خلاف ہے۔ یہ آئین اور پارلیمنٹ کی توہین ہے کہ ایک دن آپ ایک فیصلہ کریں اور اگلے دن اسے نظر انداز کر دیں۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان