درج ذیل نکات وہ ہیں جنہیں 1952ء میں پاکستان کے جید علماء اور تمام مسلم فرقوں کے نمائندگان نے مرتب کرکے دستور پاکستان کی اساس بنانے کیلئے پیش کیا تھا ۔
جمعیت علماء اسلام نے اپنے منشور میں بھی ان نکات کو شامل کیا ہے اور وہ شروع سے ہی ان نکات کو پاکستان کے دستور میں شامل کرنے کا مطالبہ کرتی چلی آرہی ہے ۔
(1) اصل حاکم تشریعی وتکوینی حثیت سے اللہ رب العالمین ہے ۔
(2) ملک کا قانون کتاب و سنت پر مبنی ہو گا اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جاسکے گا ، نہ ایسا حکم دیا جاسکے گا جو کتاب وسنت کے خلاف ہو ۔
(تشریحی نوٹ ) اگر ملک میں پہلے سے کچھ ایسے قوانین جاری ہوں جو کتاب وسنت کے خلاف ہوں تو اس کی تصدیق بھی ضروری ہے کہ وہ بتدریج ایک معینہ مدت کے اندر ممنوع یا شریعت کے مطابق تبدیل کر دئے جائیں گے ۔
(3) مملکت کسی جغرافیائی ، نسلی ، لسانی یا کسی اور تصور پر ، بلکہ ان اصول اور مقاصد پر مبنی ہو گی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہو ضابطہ حیات ہے ۔
(4) اسلامی مملکت کا یہ فرض ہو گا کہ کتاب و سنت کے بتائے ہوئےمعروضات کو قائم کرے ، منکرات کو مٹائے اور شعائر اسلام کے احیاء واعلاء اور متعلقہ اسلامی فرقوں کیلئے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کا انتظام کرے ۔
(5) اسلامی مملکت کا یہ فرض ہو گا کہ وہ مسلمانان عالم کے رشتہ اتحاد واخوت کو قوی سے قوی تر کرنے اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیت جاہلیہ کی بنیادوں پر نسلی ، لسانی ، علاقائی یا دیگر مادری امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کرکے ملت اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ و استحکام کا انتظام کرے ۔
(6) مملکت بلا امتیاز مذہب ونسل وغیرہ تمام ایسے لوگوںکی لابدی انسانی ضروریات یعنی غذا ، لباس ، مسکن ، معالجہ اور قیام کی کفیل ہوگی جو اکتساب رزق کے قابل نہ ہوں یا نہ رہے ہوں عارضی طور پر بے روزگار ہوں ، بیماری یا دوسرے وجوہ سے فی الحال سعی اکتساب پر قادرنہ ہوں ۔
(7) باشندگان ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کیے ہیں یعنی حدود قانون کے اندر تحفظ جان و مال وآبرو ، آزادی مذہب ومسلک ، آزادی عبادات ، آزادی ذات ، آزادی اکتساب رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔
(8) مذکورہ بالا حقوق میں سے کسی شہر کا کوئی حق اسلامی قانون کی سند جواز کے بغیر کسی وقت سلب نہ کیا جائے گا اور کسی مجرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہمی موقع صفائی و فیصلہ عدالت کوئی سزا نہ دی جائے گی ۔
(9) مسلمہ اسلامی فرقوں کو حدود قانون کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہو گی ۔انہیں اپنے پیروؤں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہو گا ۔ وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کر سکیں گے ۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذہب کےمطابق ہوں گے اور ایسا انتظام کرنا مناسب ہوگا کہ انہیں کے قاضی یہ فیصلہ کریں گے ،
(10) غیر مسلم باشندگان مملکت کو حدود قانون کے اندر مذہب و عبادت ، تہذیب و ثقافت اور مذہبی تعلیم کی پوری آزادی ہوگی اور انہیں اپنے شخصی معاملات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون یا رسم ورواج کے مطابق کر انے کا حق حاصل ہوگا ۔
(11) غیر مسلم باشندگان مملکت سے حدود شریعت کے اندر جو معاہدات کئے گئے ہیں ان کی پابندی لازمی ہو گی اور جن حقوق شہری کا ذکر دفعہ نمبر7 میں کیا گیا ہے ان میں غیر مسلم باشندگان ملک برابر شریک ہوں گے ۔
(12) رئیس مملکت کا مسلمان مرد ہونا ضروری ہے جس کے تدین ، صلاحیت اور اصابت رائے پرجمہور یا ان کے منتخب نمائندوں کو اعتماد ہو ۔
(13) رئیس مملکت ہی نظم مملکت کا اصل ذمہ دار ہوگا ، البتہ وہ اپنے اختیارات کا کوئی جزو کسی فرد یا جماعت کو تفویض کر سکتا ہے ۔
(14) رئیس مملکت کی حکومت مستبدانہ نہیں ، بلکہ شوارئی ہو گی یعنی وہ ارکا ن حکومت اور منتخب نمائندگان جمہور سے مشورہ لے کر اپنے فرائض سر انجام دے گا۔
(15) رئیس مملکت کو یہ حق حاصل نہ ہو گا کہ وہ دستور کو کلا ٌ یا جزواٌ معطل کر کے شوریٰ کے بغیر حکومت کرنے لگے ۔
(16) جو جماعت رئیس مملکت کے انتخاب کی مجاز ہو گی ، وہ کثرت آراء سے اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہو گی ۔
(17) رئیس مملکت شہری حقوق میں عامتہ المسلمین کے برابر ہو گا اور قانونی مواخذہ سے بالاتر نہ ہوگا ۔
(18) ارکان وعمال حکومت اور عام شہریوں کے لئے ایسا ہی قانون و ضابطہ ہو گا اور دونوں پر عام عدالتیں ہی اس کو نافذ کریں گی۔
(19) محکمہ عدلیہ ، محکمہ انتظامیہ سے علیحدہ اور آزاد ہو گا تاکہ عدلیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہیئت انتظامیہ سے اثر پذیر نہ ہو۔
(20) ایسے افکار ونظریات کی تبلیغ و اشاعت ممنوع ہو گی جو مملکت اسلامی کے اساسی اصول و مبادی کے انہدام کا باعث ہوں ۔
(21) ملک کے مختلف ولایات و اقطاع مملکت واحدہ کے اجزاء انتظامی متصور ہوں گے ،ان کی حثیت نسلی ، لسانی یا قبائلی واحدہ جات کی نہیں ، بلکہ مخص انتظامی علاقوں کی ہو گی ، جنہیں انتظامی اختیارات کے پیش نظر مرکز کی سیادت کے تابع انتظامی اختیارات سپرد کرنا جائز ہوگا ، انہیں مرکز سے علیحدگی کا حق حاصل نہ ہو گا ۔
(22) دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہو گی جو کتاب وسنت کے خلاف ہو ۔
نوٹ
مندرجہ بالا 22 اسلامی نکات کی ترتیب کے لئے 15/14/13/12 ربیع الثانی 1370ھ بمطابق 24/23/22/21 جنوری 1951ء کو کراچی میں مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم رحمتہ اللہ علیہ کی زیرصدارت میں درج ذیل علماء و دیگر حضرات کا اجتماع منعقد ہوا تھا اور بالا اتفاق مذکورہ بالا 22 نکات طے ہوئے تھے ۔
جمعیت علماء اسلام کے ناظم عمومی حضرت مولانا مفتی محمود نوراللہ مرقدہ نے مارچ 1969ء میں گول میز کانفرنس منعقدہ راولپنڈی میں انہیں باقاعدہ طور پر ارباب اقتدار اور سیاسی لیڈروں کے سامنے پیش کر دیا تھا ۔
ان 22 نکات پر دستخط کرنے والوں کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں ۔
(1) مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم
(2) مولاناشمس الحق افغانی مرحوم
(3) مولانا بدرعالم صاحب مرحوم
(4) مولانا احتشام الحق صاحب تھانوی مرحوم
(5) مولانا عبد الحامد صاحب قادری بدایونی مرحوم
(6) مولانا مفتی محمدشفیع صاحب کراچی مرحوم
(7) مولانا محمد ادریس کاندھلوی مرحوم
(8) مولانا خیر محمد صاحب مرحوم مہتمم خیر المدارس ملتان
(9) مولانا مفتی محمد حسن صاحب مرحوم جامعہ اشرفیہ لاہور
(10) پیر امین الحسنات صاحب مرحوم مانکی شریف
(11) مولانا محمد یوسف بنوری مرحوم کراچی
(12) حاجی خادم الاسلام صاحب (خلیفہ حاجی ترنگزئی )
(13) قاضی عبدالصمد صاحب سربازی (بلوچستان)
(14) مولانا اطہر علی مرحوم (مشرقی پاکستان )
(15) مولانا ابو جعفر محمد صالح صاحب مرحوم (مشرقی پاکستان)
(16) مولانا راغب احسن صاحب مرحوم (مشرقی پاکستان)
(17) مولانا حبیب الرحمٰن صاحب مرحوم (مشرقی پاکستان)
(18) مولانا محمد علی صاحب جالندھری مرحوم ملتان
(19) مولانا داؤد غزنوی صاحب مرحوم
(20) مفتی جعفر حسین مرحوم مجتہد (شیعہ حضرات میںسے )
(21) مفتی کفایت حسین مرحوم مجتہد (شیعہ حضرات میں سے )
(22) مولانا محمد اسماعیل صاحب مرحوم گوجرانوالہ (اہل حدیث )
(23) مولانا حبیب اللہ صاحب مرحوم تھیڑی خیرپوری
(24) مولانا احمد علی صاحب لاہوری مرحوم (انجمن خدام الدین شیرانوالہ گیٹ لاہور)
(25) مولانا محمد صادق صاحب (مدرسہ مظہر العلوم کھڈ ہ کراچی )
(26) پروفیسر عبدالخالق صاحب
(27) مولانا شمس الحق صاحب فرید پوری مرحوم (مشرقی پاکستان )
(28) مفتی محمد صاحب داد مرحوم کراچی
(29) پیر محمد ہاشم صاحب مجددی مرحوم سندھ
(30) سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی مرحوم
(31) محمد ظفر احمد صاحب انصاری مرحوم