پاکستان کے قیام کا مقصد برصغیر کے مسلمان عوام کو برطانوی دور کےغیر اسلامی اور ظالمانہ نظام وقوانین سے نجات دلا کر اسلامی نظریا ت ، اسلامی اخوت اور اسلامی مساوات پر مبنی نظام حکومت قائم کرنا اور اسلامی معاشرہ تعمیر کرنا تھا ۔
اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان کانظام حکومت خالص شریعت اسلامیہ کے احکام پر قائم کیا جائے اور اس کی زمام کار پاکستان کے مسلمان عوام معتمد ، منتخب اور اہل ترین افراد کے ہاتھ میں ہو ۔ تاکہ پاکستان دنیا میں ایک مثالی اسلامی مملکت بن سکے ۔چنانچہ اس پاک اور عظیم مقصد کےحصول کےلئے کل پاکستان جمعیت علماء اسلام کے منتخب اراکان مجلس عمومی مؤرخہ 14 رجب 1389ھ بمطابق 27 ستمبر 1969ء بمقام سرگودھا جمع ہوئے ۔
نظام حکومت
پاکستان کو ایک صحیح اور مکمل اسلامی مملکت اور اسلامی حکومت بنانے کے لئے مندرجہ ذیل امو ر عمل میں لائے جائیں گے ۔
سرکاری مذہب
(1) مملکت کا سرکاری مذہب اسلام ہو گا ۔
22 ۔اسلامی نکات
(2) تمام فرقوں کے نمائندہ جید علماء کے مرتب کردہ 22۔ اسلامی نکات کی روشنی میں ملک کے دستور کو مکمل اسلامی بنایا جائے گا ۔
قرآن وسنت کےقوانین
(3 ) صرف قرآن وسنت کے احکام ہی ملک کے اساسی قوانین قرار پائیں گے ۔
(4) ملک کے دستور اور قانون میں اسلام کے کامل ومکمل دین ہونے اور محمدرسول اللہ ﷺ کے خاتم النبین ہونے کا دستوری وقانونی تحفظ کیا جائے گا ۔
(5) خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین کے ادوار حکومت وآثار کو اسلامی نظام حکومت کے جزئیات متعین کرنے کے لئے معیار قرار دیا جائے ۔
کلیدی اسامیاں
(6) ملک کی کلیدی اسامیاں غیر مسلموں کے لئے ممنوع قرار دی جائیں گی ۔
صدر مملکت کے لئے اسلامی شرائط
(7) صدر مملکت اور وزیر اعظم کا مسلمان مرد ہونا اور پاکستان کی غالب اکثریت اہل سنت کاہم مسلک ہونا ضروری ہو گا ۔
مسلمان کی تعریف
(8) مسلمان کی قانونی تعریف یہ ہو گی کہ ” وہ قرآن و حدیث پر ایمان رکھتا ہوئے ان کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و اسلاف رحمہم اللہ اجمعین کی تشریحات کی روشنی میں حجت سمجھے اور سرور کائنات ﷺ کے بعد نہ کسی نبوت کا اور نہ کسی شریعت کا قائل ہو ” ۔
غیر اسلامی فرقے
(9) جو فرقے اسلام کے کسی بنیادی عقیدہ ختم نبوت وغیرہ سے انحراف کے مرتکب ہو چکے ہیں انہیں غیر اسلامی فرقے قرار دیا جائے گا اور آئندہ ا س قسم کے انحراف کو دستور ممنوع او ر واجب التعزیر قرار دے دیا جائے گا ۔
اسلامی دفعات میں تبدیلی ممنوع
(10) دستور کی اسلامی دفعات (قرآن و سنت کے اصولوں ) اور مملکت کی اسلامی حثیت میں کسی قسم کی ترمیم یا تبدیلی کی اجازت نہیں ہو گی ۔
ممانعت
(11) اسلام اور اس کے کسی بھی حکم و عقیدہ کے خلاف کسی قسم کی تنقید و تبلیغ کی نہ تقریری اجازت ہوگی نہ تحریری ۔
عوامی براہ راست نمائندگی کی تصریح
(12) دستور میں مسلمان عوام کی براہ راست نمائندگی واختیار کو صراحتا” تسلیم کیا جائے گا ۔
اللہ کی حاکمیت اور عوام کا اقتدار
(13) دستوریں یہ بات قانونا واضح کر دی جائے گی کہ ” حاکمیت صرف اللہ رب العالمین کی ہے اور اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر پاکستان کے مسلمان عو ام مملکت پاکستان کے اختیارات کے اصل مالک ہوں گے ۔
انتخابی طریق شخصی نہیں جماعتی
(14) پاکستان کی مجالس شوریٰ (اسمبلیوں ) وغیرہ میں نمائندگی کے لئے انتخابات کا نظام شخصی مقابلہ کی بجائے جماعتی مقابلہ پر قائم کیا جائے گا اور افراد کے بجائے جماعتیں اپنے منشور و پروگرام کی اساس پر انتخابات میں حصہ لیں گی اور فی صد کامیابی کے تناسب سے مجالس شوریٰ کی رکنیت کی حق دار بنیں گی اور تشکیل کریں گی ۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب