حصول معاش کے مواقع
(1) پاکستان کے ہر شہری کو حصول معاش (روزگار ) کے باعزت مواقع مہیا کئے جائیں گے اور عورتوں کو اپنے مخصوص شعبوں میں شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے ملازمت کے مواقع مہیا کئے جائیں گے۔
بے زمین کسانوں کے لئے معاش کا انتظام
(2) دیہات میں کاشت کا کام کرنے والے بے زمین افراد کو ایک کنبہ (فیملی )کی باسہولت گزار اوقات کےلئے حسب گذارہ زرعی کا قطعہ مفت دیا جائے گا ۔
بلا سود زرعی قرضہ
(3) ضرورت کی صورت میں بلا سود زرعی قرضہ بھی مہیا کیا جائے گا
مالیہ سے مستثنیٰ
(4) حسب گذارہ ملنے الا قطعہ زمین ہر قسم کے مالیہ سے مستثنیٰ ہو گا ۔
دیہات میں چھوٹی چھوٹی صنعتوں کا قیام
(5) دیہات میں جگہ جگہ مقامی چھوٹی چھوٹی صنعتیں (لوکل سمال انڈسٹری ) قائم کی جائیں گی جیسے پھلوں، سبزیوں ،مچھلیوں کو ڈبوں میں پیک کرنے کی صنعت ،چھوٹے چھوٹے زرعی آلات ہل وغیرہ بنانے کی صنعت ،ڈیری فارم، پولٹری فارم اور دستکاری کے مراکز کا قیام تاکہ دیہات کی آبادی کو روزگار مہیا ہو سکے اور وہ دیہات کو چھوڑ کر شہر منتقل ہونے پر مجبور نہ ہوں۔
بلاسود امداد باہمی کے اسٹور
(6) دیہات میں بلا سود امدادی باہمی کے اصولوں پر اجناس و ضروریات کی خریدوفروخت کے اسٹور کھولے جائیں گے ۔
شہروں میں صنعتوں و کارخانوںکا قیام
(7) شہروں میں صنعتوں اور کارخانوں کا وسیع جال پھیلایا جائے گا جن میں زیادہ سے زیادہ مقامی افراد کو روزگار مہیا ہو سکے گا ۔
بے روزگاری کا کلیتہ” خاتمہ
(8) غرضیکہ دیہات اور شہروں سے بے روزگاری کا کلیتہ ” خاتمہ کر دیا جائے گا۔
گذارہ الاؤنس ‘
(9) اس سب کے باوجود اگر کوئی شخص بے روزگار رہ جائے گا تو اس کا گذارہ الاؤنس مقرر کر دیا جائے گا ۔
سرپرستی سے محروم اور معذور افراد کی معاش کا انتظام
(10) معذور ہو جانے والے افراد کسی وجہ سے روزگار کے قابل نہ رہنے والے افراد سرپرست کے فوت ہو جانے سے یتیم ، بیوہ اور بے سہارا رہ جانے والے افراد کے گذارہ کا فورا” معقو ل انتظام کیا جائے گا۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب