سندھ کے عظیم روحانی پیشوارامام الاتقیاء امیر العلماء مجاہد فی سبیل اللہ
مولانا عبدالکریم قریشی رحمۃاللہ علیہ امیر جمعیت علماء اسلام پاکستان
پیدائش 1923 وفات1999
ستمبر1923ء میں حضرت مولانا عبدالکریم قریشی بیر شریف تحصیل قنبر ضلع لاڑکانہ میں پیدا ہوئے ۔ والد کا اسم گرامی حضرت مولانا محمد عا لم قریشی اور دادا کا اسم گرامی حضرت مولانا محمد عبداللہ قریشی تھا۔ بیر شریف میں یہ خاندان کئی پشتوں سے علم و فضل کا نشان تھا۔
ابتدائی تعلیم
مولانا عبدالکریم قریشی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی حضرت مولانا محمدعالم’’ ہٹی گائوں‘‘ کے مولانا محمد ایوب گوٹھ لاکھا کے مولانا تاج محمود مگسی گھورو پہوڑ کے میر بخش بھٹو سے حاصل کی ۔ پھر حضرت مولانا عبیدا للہ سندھی کے علوم کے وارث حضرت مولانا غلام مصطفی قاسمی صاحب سے پانچ سال میں تکمیل کی ۔ گھوٹگی اور دیگر مقاما ت پر جہاں جہاں مولانا غلام مصطفی قاسمی تعلیم دیتے رہے آپ ان کے ہمراہ رہے ۔
تحریک ختم نبوت
تحریک ختم نبوت 1953ء میں اپنے شیخ حضرت ہالیجویؒ کے ہمراہ سکھر کی عظیم الشان کانفرنس میں شرکت کی۔ ہزاروں بندگان خدا کو دن رات ایک کر کے تحریک سے وابستہ کر دیا۔ تحریک ختم نبوت پاکستان میں آپ نے بھرپور شرکت فرمائی
جمعیت علماء اسلام سے وابستگی اور خدمات
1956ء میں آپ نے جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے اپنے تحریکی دور کا آغاز کیا۔ ایوب خان کے عائلی قوانین ڈاکٹر فضل الرحمن کا فتنہ، تحریک نظام مصطفی اور ایم آر ڈی، غرضیکہ تمام ملکی و قومی تحریکوں میں آپ نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ جمعیۃ علماء اسلام کے صوبائی اور مرکزی عہدوں پر فائز رہے۔ جمعیۃ علماء اسلام کل پاکستان کی امارت بھی آپ کے حصہ میں آئی۔ آخر عمر میں اہل حق کے قافلہ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے آپ سرپرست اعلیٰ تھے۔ (صدائے حریت خصوصی نمبر31)
جمعیت کی قیادت
1980 میں مفکر اسلام مولانا مفتی محمود کے سانحہ وفات کے بعد علماء اور عوام پر جو سکتہ طاری تھا اوسان خطا ہوگئے تھے ۔ا س مشکل گھڑی میں جماعت کی نشاۃ ثانیہ کے لئے آپ نے جدوجہد کی اور حضرت خالد بن ولید کی طرح علم جہاد بلند کیا اور کنونیز شپ قبول فرمائی۔ یوں آپ کا کردار جمعیت علماء اسلام پاکستان کی تاریخ کا سنہری باب قرار دیا ہے
تصنیفی خدمات
تصنیف آپ نے درس و تدریس اور تمام تر مصروفیات کے ہوتے ہوئے علم بالقلم کی قرآنی تعلیم کے ذریعے دین و اسلام کی اشاعت اور رشد وہدایت کا پیغام پہنچایا اور اہم موضوعات پر چھوٹی بڑی کتابیں لکھیں ۔ جن کی تعداد۴۵ سے متجاوز ہے کچھ قابل ذکر کتابوں کے نام یہ ہیں۔
1۔ شمائل ترمذی سندھی ترجمہ 2 ۔ المساجد اللہ سندھی ،عربی
3۔ الارشاد فی تحقیق الضاد 4۔ انسان کی عظمت اردو ، سندھی
5۔ اسلامی نظام کی دعوت 6۔ التنویر لتحلیق ا
للحیۃ و التصویر
داڑھی منڈانا اور تصویر کا فتنہ مسلمانوں میں عام ہو گیا ہے اور خصوصا بلا د عرب میں تو وباکی شکل اختیار کرچکا ہے ان دونوں کا کتاب و سنت کے مضبوط اور ٹھوس دلائل سے شرعی حکم کتاب میں بیان کیاگیا ہے ۔
وفات
4جنوری 1999 مطابق 16رمضان المبارک1419ء کو آپ کراچی میں فوت ہوئے ۔ آپ کو بیرشریف کی مسجد متصل قبرستان میں سپردِرحمتِ باری کردیاگیا۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب