آزاد انہ عدلیہ
(1) عدلیہ مکمل طور پر انتظامیہ سے آزاد ہو گی ۔
آسان ترین حصول انصاف
(2) حصول انصاف کے طریقے بالکل آسان بنائے جائیں گے ۔
مفت انصاف
(3) عدالتوں سے انصاف کا حصول مفت ہو گا ۔
تقرر کی اہلیت اسلام ہوگی
(4) ججوں اور منصفوں کا تقرر کتاب وسنت و شریعت اسلامیہ کی مکمل واقفیت اور اسلامی سیر ت کے معیار و اہلیت پر ہوا کرے گا ۔
قوانین اسلامی ہوں گے
(5) ملک کے دیوانی و فوجداری قوانین میں شریعت کے مطابق تبدیلیاں کی جائیں گی ۔
انتظامیہ کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا
(6) انتطامیہ کے کسی بھی ادارے اور اس کے ہر چھوٹے بڑے افسر اور ملازم کے کسی بھی فعل کو عدالت میں چیلنج کرنے کا حق ہر شہری کو حاصل ہو گا ۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں مسائل پر بات چیت کے لئے پارلیمانی وفود بھیجنے کا مطالبہ کردیا،سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کو ملک کے لیے غیر ضروری سمجھنے سے زیادہ بڑی حماقت کوئی نہیں ہوسکتی ، لاپتہ افراد کے معاملے کی وجہ سے ملک میں عوامی نفرت بڑھ رہی ہے، اداروں پر اعتمادختم ہورہا ہے ، صوبوں کے وسائل پر قابض ہونے کی بجائے ان کے حقوق کوتسلیم کریں قبائلی اضلاع میں قیمتی معدنیات اور وسائل پر قبضہ کے لئے قبائل پر جنگ مسلط کی گئی ہے پارلیمینٹ میں تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت ہونی چاہئے،سیاستدانوں کوسائیڈ لائن کرنا ترک کردیں، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے معاملات ان کے حوالے کردیں حل نکل آئے گا تمام معاملات میں خود کو فیصل آباد کا گھنٹہ گھر یا امرت دھار سمجھ لینا خواہش ہوسکتی ہے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ۔
قا د یانی مبارک ثانی مقدمے کے حتمی فیصلے کو اناؤنس کیا ہے اور انہوں نے گزشتہ فیصلے جو چھ فروری کو اور پھر چوبیس جولائی کو ہوئے تھے ان کے تمام قابل اعتراض حصوں کو حذف کر دیا ہے میں اس بہت بڑی کامیابی پر پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں امت مسلمہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں تمام دینی جماعتوں کو ان کے کارکنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں
72 سال کا ہوگیا ہوں پہلی بار کسی عدالت میں پیش ہورہا ہوں،عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے آئے ہیں،مولانا فضل الرحمان
قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا لکی مروت میں امن عوامی اسمبلی سے خطاب
قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پشاور میں تاجرکنونشن سے خطاب