شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ

متحدہ ہندستان کے متفقہ قائد اعظم شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ
تحریک ریشمی رومال، تحریک خلافت، تحریک ترک موالات کے قائد زندانِ مالٹا کے اسیر
دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث تحریک آزادی کے عظیم مجاہد
پیدائش1851ء وفات 1920ء
پیدائش و تعلیم :
حضرت شیخ الہند 1268ھ مطابق 1851ء بمقام بریلی پیدا ہوئے جہاں آپکے والد مولانا ذوالفقار علی دیوبندی بوجہ ملازمت مقیم تھے ۔ چھ سال کی عمر میںتعلیم شروع کی قرآن پاک میاں جی منگلو اور میاں جی مولوی عبدالطیف سے پڑھا ۔ فارسی اور عربی کی کتابیں اپنے چچا مولانا مہتاب علی سے پڑھیں ۔
دارلعلوم دیوبند کی ابتداء حضرت کی طالب علمی :
حضرت شیخ الہند کی عمر پندرہ سال تھی کہ15محرم1683ھ 30مئی 1866ء کو دیوبند کے شہر میں ایک عربی مدرسہ کا قیام عمل میں لا یاگیا بانی دارالعلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؓ کی تجویز پر ملا محمودصاحب کو اس مدرسہ کا پہلا استاد مقرر کیا گیا ۔ دیوبند کی مشہور مسجد چھتہ میں تعلیم کا آغاز ہوا حضرت شیخ الہند نے اس جگہ پہلے شاگرد کی حیثیت سے اپنی تاریخی ، علمی زندگی کی ابتداکی ۔ ۱۲۸۶ھ ۸۶۹ا/ ۱۸۷۰ء میں صحاح ستہ اور بعض دیگر کتب حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی سے پڑھیں ۔ مولانا قاسم نانوتوی میرٹھ اور دہلی تشریف لے جاتے تو شیخ الہند بھی آپ کے ساتھ جاتے اس طرح سفر و حضر میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ۔
دستار بندی اور تدریس:
19 ذی قعدہ1290ء مطابق1873ء کو مدرسہ کے جلسہ دستاربندی میں اس وقت کے اکابر علما ء کرام و شیو خ عظام کی موجودگی میں آپکی دستار بندی ہوئی اور آپکو دارالعلوم دیوبند کا مدرس مقرر کیا گیا ۔
مسندِ صدارت :
1305 ھ 1888ء میں مولانا سید احمد دہلوی صدر مدرس دارالعلوم دیوبند کے مستعفی ہونے کے بعد حضرت شیخ الہند کو دارلعلوم دیوبند کی منصب صدارت تفویض کر دی گئی ۔
آزادی کی پہلی اینٹ :
حضرت شیخ الہند نے برطانوی استعمار سے آزادی کیلئے سب سے پہلے میدان جہاد میں اس وقت قدم رکھا جب پورے اہل ہند پر سکوت طاری تھا ۔ انگریز کی محالفت گویا موت کو دعوت د یناتھی ۔1878ء کو حضرت شیخ الہند نے ثمرۃ التربیت کے نام سے ایک جماعت کی بنیاد رکھی ۔اور منظم طریقہ سے نوجوانوں میں انقلابی روح پھونکنے کا عزم لے کر اٹھے ۔ حضرت مدنی فرماتے ہیں شروع شروع میں قیاس سے بھی زیادہ مشکلات سامنے آئیں اور تند آندھیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ باد سموم کے جھلسا دینے والے تھپڑوں نے طماچے مارے احباب و اقارب مار آستین بن گئے ہر شخص ناصح و خیر خواہ بن کر سد راہ بنا اور کیوں نہ بنتا انگریز نے اس قدر پیش بندی کر رکھی تھی کہ سیاست کی طرف آنکھ اٹھانا ۱۸۵۷ء کا سماں باندھنا تھا ۔ آزادی اور انقلاب کو اگر کوئی خواب میں بھی دیکھ لیتا تو پِتہ پانی ہو جاتا تھا ۔ چاروں طرف خفیہ پولیس کا جال بچھا ہوا تھا پھر کس طرح امید کی جا سکتی تھی کہ کوئی شخص ہم خیال اور ہم زبان باہم عمل ہو سکتا ہے ۔ بہر حال مولانا شیخ الہند نے تمام خطرات سے قطع نظر ضروری سمجھا اور یر چہ بادا بادمن کشتی در آب اندا ختم کہتے ہوئے اللہ کا نام لے کر اس بحر ذخار میں اور ہولنا طوفان میں کود کر آگے بڑھے او ر لوگوں کو ہم خیال اور رفیق سفر بنانے لگے ۔ بڑے بڑے علماء و مشائخ سے چونکہ نا امید اور مایوس تھے اس لئے تلا مذہ اور مخلص سمجھدار مریدوں کو ہم خیال بناتے رہے ۔ ( بیس بڑے مسلمان241) اختصار اً ۔
جمعیت الانصار کا قیام :
1990ء میں حضر ت شیخ الہند نے جمعیتہ الانصار قائم فرمائی ۔ مولانا عبیدا للہ سندھی فرماتے ہیں1327ھ میں حضر ت شیخ الہندنے مجھے دیوبند طلب فرمایا اور مفصل حالات سن کر دیوبند میں رہ کر کام کرنے کا حکم دیا چار سال تک جمعیتہ الانصار میں کام کرتا رہا اس تحریک کی تا سیس میں مولانا محمد صادق صاحب سندھی اور مولانا ابو محمد صاحب لاہوری اور عزیزی مولوی احمد علی میرے ساتھ شریک تھے ۔ پھر شیخ الہند کے ارشاد سے میرا کام دیوبند سے دہلی منتقل ہوا۔ ( علماء حق کے مجاہدانہ کارنامے 123) دارالعلوم دیوبند کے قیام کا مقصد:
مولانا مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں کہ ایک دن کچھ ایسا ہوا کہ مولانا حبیب الرحمان عثمانی نائب مہتمم نے فقیر کو یاد فرمایا اور کہا کہ تم حضرت شیخ الہند سے مل کر دریافت کرو کہ واقعی سیاسیاست میں حضرت والا کا صحیح مسلک کیا ہے ؟ میں خود حیران ہو ں کہ اتنے اہم مسئلے کے متعلق مولانا حبیب الرحمان صاحب نے مجھ جیسے کسمپر س آدمی کا انتخاب کیوں کیا؟ لیکن اب کیا کیجئے کہ واقعی یونہی پیش آیا شائد ظہر کی نماز کے بعد کا واقعہ ہے مسجد کے احاطہ میں ایک کمرہ تھا جسے اس زمانہ میں دارالتصنیف کا نام دیاگیا تھا اس کمرے میں حضرت شیخ الہند رحمتہ اللہ علیہ اپنی زندگی کے آخر مشغلہ یعنی ترجمہ قرآن مجید کا کام کچھ دیر کیا کرتے تھے فقیر تو اس احاطہ کا باشندہ ہی تھا نماز کے بعد حضرت اپنی تصنیف و ترجمہ کے اسی کمرے میں تشریف لے گئے تنہا تھے موقع پر فقیر بھی پیچھے سے حاضر ہو کر عرض رسا ہوا کہ کچھ عرض کرنا ہے جیسا کہ قائدہ تھا خندہ جبینی سے فرمایا آئو کیا کہنا چاہتے ہو بیٹھ گیا اور جوپیغام میرے سپرد کیاگیا تھا اسے پہنچادیا سنتے رہے اپنی بات جب ختم کرچکا تو دیکھا کہ حضرت پر ایک خاص حال طاری ہے اور اپنے استاذ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب بانی دارالعلوم جن کو وہ حضرت الاستاذ کے لفظ سے یاد کرتے تھے انہی کا نام لے کر فرمایا حضرت لاستاذ نے اس مدرسہ کو کیا درس و تدریس تعلیم و تعلم کے لئے قائم کیا تھا؟مدرسہ میرے سامنے قائم ہوا جہاں تک میں جانتا ہوں ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کی ناکامی کے بعد یہ ادارہ قائم کیاگیاکہ کوئی ایسا مرکز قائم کیا جائے جس کے زیر اثر لوگوں کو تیار کیا جائے تا کہ 1857ء کی ناکامی کی تلافی کی جائے ۔ حضرت والاکی تقریر سے دل میں جو اثر اس وقت قائم ہوا تھا اسی اثر کے نتائج کی تعبیر اپنے الفاظ میں کردی گئی ہے آخر میں ارشاد ہوا تعلیم و تعلم، درس و تدریس جن کا مقصد اور نصب العین ہے میں ان کی راہ میں مزاحم نہیں ہوں لیکن خود اپنے لئے تو اسی راہ کا میں نے انتخاب کیا ہے جس کے لئے دارالعلوم کا یہ نظام میرے نزدیک حضرت الاستاذ نے قائم کیا تھاا س کے بعد دو راہیں مختلف ہوگئیں ایک راہ تعلیم و تعلم دینی نشرواشاعت کی تھی اور دوسری راہ وہی تھی جسے بالآخر حضرت شیخ الہند نے اختیار فرمایا اور اسی مسلک کے ساتھ اپنے مالک سے جا ملے خیال آتا ہے کہ حضرت نے یہ بھی فرمایا تھا کہ فرائض الہیہ جس حد تک بن پڑا ادا کرتا رہا اب آخری کام رہ گیا ہے جسے اپنے حد تک تو میں کر گزروں گا۔ اور اسی کو وہ کر گزرے خاکسار نے جو کچھ سنا تھا وہی ان لوگوں تک پہنچادیا جنہوں نے اپنا پیغام دے کر بھیجا تھا۔
( احاطہ دارالعلوم دیوبند میں بیتے ہوئے دن 170)
تحریک آزادی کے مراکز:
سر سید احمد خان اس وقت مسلمانوںکے مصلح اعظم تھے ان کی تمام تر سرگرمیوں کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو انگریز حکومت پر مکمل بھروسہ کرنا چاہیے وہی ان کے حقوق کا تحفظ کرسکتی ہے سر سید کا منشایہ تھا کہ مسلمان انگریز کی غلامی میں جکڑے رہیں انگریز ہندوستان سے نہ جائیں غلامی کے ایسے تاریک دور میں جب روشنی کی ایک ہلکی سی کرن بھی نہیں دکھائی دیتی تھی حضرت شیخ الہند وہ پہلے سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے ہندوستان کی مکمل آزادی کیلئے غوروفکر کرکے جدوجہد اور قربانی کا ایک لائحہ عمل تیار کیا آپ نے پوری رازداری کے ساتھ خفیہ طور پر سرفروشوں مجاہدوں اور جانبازوں کی ایک جماعت تیار کی جس میں ہندومسلمان سکھ سب ہی شریک تھے حضرت نے اپنے مکان کے قریب ایک مستقل مکان کرایہ پر لے رکھا تھا جس کو کوٹھی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا حضرت نے اپنے محاذ آزادی کے کئے مرکز دیوبند، دہلی، کراچی، دین پور شریف، چکوال، امروٹ سندھ وغیرہ ہندوستان میں قائم کئے اور ہر جگہ مختلف حضرات کی سربراہی میں تحریک آازادی کے لئے مجاہدین سے بیعت جہاد لی جارہی تھی اور لوگ جوق درجوق تحریک میں شریک ہو رہے تھے آزاد قبائل کو جدجہد کا عملی مرکزمقرر کیا وہاں مولانا سیف الرحمن مولانا فضل محمود اور مولانا محمد اکبر صاحب کو ہندوستان سے روانہ کرکے برطانوی حکومت پر حملہ کے لئے مجاہدین کومنظم کرنے کا حکم دیا ۱۹۱۴ ء کی جنگ عظیم میں جب انگریزوں کی چیرہ دستیاں اہل ہند اور مسلمانان عالم کے خلاف حد سے زیادہ ہوگئیں توحضرت شیخ الہندنے اپنے خاص سپہ سالار حاجی ترنگزئی صاحب کو مطلع کیا کہ اب مزید انتظار کا وقت نہیں ہے مناسب وقت دیکھ کر فوراً طبل جنگ بجاد یا جائے چنانچہ حاجی صاحب کی قیادت میں انگریز کے کیمپوں پر حملہ کردیا گیا اور باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی جس میں برطانیہ کو جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا جنگ میں وسائل مہیا کرنے کے لئے حضرت شیخ الہند نے پہلے ہی مختلف ملکوں کی طرف اپنے سفیرمولانا عبید اللہ سندھی ، مولانا محمد میاں منصور انصاری، مولانا سیف الرحمن وغیرہ روانہ کردیئے تھے یہ حضرات بھیس بدل کر بڑی سختیاں برادشت کرتے ہوئے اپنے مراکز پر نہایت کامیابی کے ساتھ سرگرم عمل رہے (۔ مولانا حسین احمد مدنی ایک تاریخی وسوانحی مطالعہ 173۔) آزادی ہند کا سب سے بڑا منصوبہ تحریک ریشمی رومال:
تحریک ریشمی رومال ایک جامع منصوبہ بندی اور انقلابی پروگرام تھا کہ برٹش سامراج کے خلاف ملک بھر میں عام بغاوت کرائی جائے اور ملک کو فرنگی استبداد سے کرانے کیلئے شمالی مغربی سرحدی صوبہ سے قبائلی عوام اور ترکی افواج کے ذریعہ حملہ کیا جائے ترکی فوج کے حملہ آور ہونے کیلئے راستہ میں افغانستان کی حکومت کو بھی ہموار کرنا تھا اس عظیم مقصد کے حصول کیلئے 1905 میں دس جامع منصوبے بنائے گئے جن کی تکمیل 1914 میں ہوئی منصوبے یہ تھے کہ ہندو مسلم مکمل اتحاد،علمائے فکرِ قدیم وجدید تعلیم یافتہ طبقے میں اشتراک فکروعمل ،انقلاب کے بعد عبوری حکومت کے خاکے کی ترتیب ،بغاوت کے خفیہ مراکز کا قیام ،بیرون ملک امدادی مراکز کا تعین ،ترکی کی حمایت کیلئے دوسروں ملکوں سے رابطہ،باہر سے حملہ کیلئے راستوں کی نشاندہی ،بیک وقت بغاوت اور حملے کیلئے تاریخ کا تعین ۔
جمعیت علماء ہنداور حضرت شیخ الہندؒ:
حضرت شیخ الہند ابھی تک مالٹامیں پابندِسلاسل تھے کہ ہندوستان کے علماء نے سیاسی میدان میں منظم طریقے سے اترنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے جمعیت علمائے ہند کے نام سے اپنی الگ جماعت بنائی جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء شامل تھے اور سب نے متفقہ طورپرحضرت شیخ الہندکی رہائی تک حضرت شیخ الہندکے شاگردِرشیدمفتی اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی کو جمعیت کا عارضی صدراور سحبان الہندحضرت مولانا احمدسعید دہلوی کو عارضی ناظم اعلیٰ منتخب کیاگیا مستقل صدارت کاعہدہ حضرت شیخ الہندؒکے لئے خالی رکھاگیا اور جونہی حضرت شیخ الہندرہاہوکر ہندوستان پہنچے تو جمعیت علمائے ہند صدارت کا عہدہ حضرت شیخ الہندؒکے حوالے کردیاگیا اورجمعیت کا دوسراسالانہ اجلاس دہلی میں آپ ہی کی صدارت میں منعقدہواجس میں حضرت شیخ الہندؒکوجمعیت کا مستقل صدرمنتخب کیاگیا اور اس کا اعلان بھی کردیاگیا لیکن حضرت شیخ الہندؒاس اجلاس کے ٹھیک ایک ہفتے بعد دہلی ہی میں اللہ کوپیارے ہوگئے ۔
جمعیت علماء ہند کی بنیاد :
برصغیر ہندوپاکستان میں مسلمانوںکی واحد مذہبی ،سیاسی ،حریت پسند،انقلابی جماعت جمعیت علمائے ہند کا سنگِ بنیاد 24؍نومبر1919ء میں بمقام دہلی علمائے کرام کی ایک مجلس میں رکھاگیا اس میں حنفی ،اہل حدیث،دیوبندی اور فرنگی محل مکاتب فکر کے علماء کے علاوہ الہ آباد،بدایواں وغیرہ کے علمی خانوادوں بزرگ بھی شامل تھے ۔یہ اجتماع خلافت کانفرنس کے موقع پر اس کے پہلے اجلاس مورخہ 23نومبر1919ء سے فارغ ہونے کے بعد ہواتھا مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تحریک اور مولانا امیرالزماں سلام آبادی چاٹ گامی کی تائیدسے اجتماع کے صدر مولانا عبدالباری فرنگی محل قرارپائے ۔اولاًجمعیت کے قیام کی ضرورت پر بحث کی گئی ۔اتفاق کے بعد جمعیت علمائے ہند نام قرارپایا۔ جمعیت کے آئین کا مسودہ مرتب کرنے کے لئے مولانا محمداکرم (بنگال )اور مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی کو ذمہ دار قراردیاگیا مولانا ثناء اللہ امرتسری نے عارضی صدراور ناظم کے لئے مولانا مفتی کفایت اللہ اور مولانا احمدسعید دہلوی کانام پیش کیا جو متفقہ طور پرمنظورہوگیاآیندہ جلسہ ٔامرتسر کے لئے مولانا ثناء اللہ اور مولانا سید محمددائودغزنوی نے اراکین جمعیت کو دعوت دی تھی جو قبول کرلی گئی تھی ۔ ( شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدمدنی کی سیاسی ڈائری 2؍85)
جمعیت علمائے ہندکا باقاعدہ قیام:
28؍دسمبر1919ء کو بعدنمازعصرامرتسر کے اسلامیہ ہائی سکول کے وسیع کمرے میں جمعیت علمائے ہندکا پہلاجلسہ منعقدہوا۔مختلف مکاتب فکر اور علاقہ جات کے علمائے کرام نے شرکت فرمائی ،اس نشست کے صدرمولانا عبدالباری فرنگی محلی قرارپائے اس اجلاس میں جمعیت کے قیام کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ۔اس سلسلہ میں مولانا ثناء اللہ امرتسری ۔مولانا ابوتراب محمدعبدالحق ،مولانا عبدالرزاق،سیدجالب ایڈیٹر ہمدم لکھنومولانا مفتی کفایت اللہ ،غازی محمود،مولوی منیرالزمان ،اور حکیم محمداجمل خان وغیرہ نے اظہار خیال فرمایا ۔اس نشست میں قواعدوضوابط کا اجمالی خاکہ پیش کیا گیا اور مستقل سیاسی اصول وضوابط اور نظان عمل کی تالیف کے لئے مولانا مفتی کفایت اللہ ،مولانا ابوالوفا ،مولانا محمداکرم خان ،اور مولوی منیرالزماں خان پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی ۔مولانا عبدالباری کی تحریک پر حکیم محمداجمل خان کا نام بھی کمیٹی میں اضافہ کیاگیا ۔جمعیت کے اجلاس کی دوسری نشست30؍دسمبر1919ء کو منعقدہوئی اس نشست کے صدر مفتی کفایت اللہ ؒ ،قرارپائے اس اجلاس میں سلطان عبدالحمید خان کے نام کا خطبہ پڑھنے اور صلح کا نفرنس میں ہندوستانی مسلمانوں کے بھیجنے کے بارے میں تجاویزپاس کی گئیں۔(ایضاً2؍87)
جمعیت کی صدارت کے لئے حضرت شیخ سے درخواست:
6؍ستمبر1920ء کو جمعیت علمائے ہندکا ایک خصوصی اجلاس کلکتہ میں منعقدہوا اس میں من جملہ دیگرتجاویز ایک تجویز (نمبر۶) یہ تھی ۔جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس یہ تجویز کرتاہے کہ جمعیت کا آیندہ اجلاس دہلی میں منعقدکیا جائے اور اس کی صدارت کے لئے شیخ الہند حضرت مولانامحمودحسن صاحب قبلہ سے درخواست کی کہ وہ صدارت منظورفرمائیں ۔(ایضاً۲؍۱۵۹)
جمعیت علمائے ہندکی مستقل صدارت کا اعلان:
امرتسر کے اجلاس کی تیسری نشست مورخہ یکم جنوری ۱۹۲۰ء کی تجویزنمبر(۱)کے مطابق جمعیت کے سیاسی اصول اور قواعدوضوابط کا مسودہ اجلاس امرتسر کی روداد کے ساتھ جمعیت کے ناظم (عارضی)مولانااحمدسعید دہلوی نے شائع کردیاتھا اور اراء کے حصول اور غور وفکر کے بعد جمعیت کے دوسرے اجلاس دہلی منعقدہ نومبر1920ء منظوری کے بعد جمعیت کی جانب سے شائع کردیاگیاتھا ۔اجلاسِ دہلی کی منظوری کے بعدجمعیت کے مستقل عہدے دار مندجہ ذیل حضرات قرارپائے ۔
حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی صدر
مولانامفتی کفایت اللہ دہلوی نائب صدر
مولانا احمدسعید دہلوی ناظم
ہرصوبے کی جمعیت کا صدر اعزازی نائب صدر
مولانا عمردرازبیگ مراد آبادی ،مولانا عقیل الرحمن ندوی سہارنپوری معین ناظم
شیخ فضل الرحمن سوداگر دہلی امین (خزانچی)(ایضاً2؍196)
سفر آخرت:
18ربیع الاول 1339ھ 30 نومبر 1920 ء بروز ہفتہ سات بجے کے قریب بہت تغیر ہوگیا اور حضرت دنیا سے بالکل غافل ہوگئے تنفس طویل اور غیر طبعی ہوگیا اور انقطاع عن الدنیا وتوجہ الی الرفیق الاعلی کا گمان غالب ہوگیا چار پائی کے گرد حاضرین خاموش اور آہستگی سے ذکر اللہ میں مشغول تھے اسی حالت میں حضرت نے اس غیر فانی اور واجب الو جود ہستی کو یاد کیا جس کے نام پر آپ نے اپنے آپ کو مٹایا تھا یعنی بلند آواز سے تین مرتبہ اللہ اللہ اللہ فرمایا مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب نے سورہ یاسین شروع کی مگر وہ جوش گریہ اور ادب کی وجہ سے بلند آواز سے نہیں پڑھ سکتے تھے اس پر مولانا حافظ محمد الیاس صاحب دہلوی نے پڑھنا شروع کیا سورہ قریب الختم ہوئی تو حضرت نے خود بخود حرکت کرکے اپنے بدن کو سیدھا اور درست کرلیا اور ہاتھوں کی انگلیاں کھول کر سیدھی کرلیں اور آٹھ بجے جب مولانا صاحب سورۃ کے آخر میں پہنچے تو حضرت نے ذرا آنکھ کھولی اور تصدیق قلبی کی تائید کے لئے زبان کو حرکت دی اور خاص الیہ ترجعون کی آواز پر قبلہ رخ ہو کر ہمیشہ کے لئے آنکھ بند کرلی آسانی و سہولت کے ساتھ سانس منطقع ہوگیا اور روح مقدس روح و ریحان و جنت نعیم کی بہار دیکھنے کے لئے تمام اہل اسلام کو یتیم وبے کس چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوئی اور رفیق اعلی سے جا کر مل گئی انا اللہ وانا الیہ راجعون ۔
( حیات شیخ الہند 188)
امیرامان اللہ خان کا مشن ِشیخ الہندپوراکرنے کااعلان :
افغانستان کے باد شا ہ امیر امان اللہ خان نے شیخ الہند کی وفات پر تعزیتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ مولانا محمود حسن یک کام راشروع کردندمن اورا پورا میکنم(حضرت شیخ الہند نے ایک کام شروع کیا تھا اور میں اس کو پایہ تکمیل تک پہنچائوں گایہ دراصل ہندستان کوانگریزوں سے آزادکرانے کاوعد ہ تھا انگریز اس کو کب برداشت کر سکتے تھے سازش کر کے امان اللہ خان کو سلطنت سے برخاست کردیا
(مولانا عبیداللہ سندھی کے علوم وافکار 134)