(1) جمعیت علمء اسلام کا امیر پورے نظام کا قائد اور نگران ہو گا ۔
(2) امیر مجلس عمومی ، مجلس شوریٰ ، اور مجلس عاملہ کے اجلاسوں کی صدارت کرے گا اور ان کی عدم موجودگی میں کوئی نائب امیریہ فرائض سر انجام دے گا اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے امیر اور نائب امیر موجود نہ ہوں اور اجلاس باظابطہ بلایا گیا ہو تو ایسی صورت میں مجلس حاضرین میں سے کسی کو اجلاس کی صدارت کے لئے منتخب کر کے اجلاس جاری رہے گا۔
(3) امیر کی علالت یاغیر موجودگی میں عارضی طور پر نائب امیراول قائم مقام امیر ہوگا ۔
(4) اگرکسی وقت امیر استعفاء یا کسی دوسری وجہ سے عہد ہ امارت خالی ہو تو نائب امیراول تا انتخاب امیر قائم مقام امیر شمار ہو گااس صورت میں امیر کا انتخاب چھ ماہ کے اندر ضروری ہوگا ۔
(5) امیر اپنی مجلس شوری ٰ کے مشورے سے کام کرے گا اور تمام اہم معاملات جو مختلف فیہا ہوسکتے ہیں جن سے جمعیت کی پالیسی پر اثر پڑسکتا ہے مجلس شوری ٰ میں ہوں گے اور فیصلہ کثرت رائے سے ہوگا۔
(6) جن معاملات میں ارکان مجلس شوری ٰ کی رائے برابر ہو گی ۔ ان میں آخری فیصلے کا اختیار امیر کو ہو گا ۔
(7) کسی ماتحت جمعیت کو توڑنا یا الحاق کرنا جمعیت کی تمام املاک کی حفاظت اور جمعیت کے مفاد کے لئے تصرف کرنا ۔
(8) جمعیت کے بیت المال کو جمعیت کے مفاد کے لئے مجلس عاملہ کے مشورہ سے صرف کرنا ۔
(9) مجلس شوریٰ کے ارکان کو حسب دستور نامزد کرنا ۔
(10) بعض اہم مسائل میں مجلس شوری ٰ کی بحثوں میں بعض غیر رکن حضرات کو شرکت کی دعوت دینا جو متعلقہ مسائل میں خاص بصیرت رکھتے ہوں ۔
(11) کسی ماتحت امیر ، عہدیدار ، رکن مجلس شوریٰ یا رکن جمعیت کو معزول کرنا جو جمعیت کے اغراض و مقاصد میں وفادار ثابت نہ ہو ۔
(12) امیر اپنی مجلس عاملہ کے نامزد ارکان یا کسی رکن شوریٰ سے منظوری لینے کے بعد اپنے عہدے سے سکبدوش کر سکتا ہے ۔
(13) اہم امور میں اپنی صوابدید کے مطابق کسی سے خط و کتابت یا گفت و شیند کرنا اور ان کے بارے میں مجلس عاملہ کے مشورہ سے کوئی اعلان جاری کرنا ۔
(14) نظماء وعمال دفتر کے کام کی نگرانی کرنا اور شکایتوں کی سماعت کرنا ۔
(15) نائب امراء میں حسب صوابدید فرائض کو تقسیم کرنا اور ان میں درجات قائم کرنا ۔
(16) ماتحت تنظیموں کے تنازعات نمٹانا ۔؎
(17) اگر کسی سطح کے عہدیدار جمعیت کے امور میں سستی اور کاہلی سےکام لیں بالائی جمعیت کی ہدایت کی پروانہ کریں تو ایسی صورت میں امیر بالا کام چلانے کی غرض سے دوسرے قائم مقام عہدیدار کی نامزدگی کر سکتا ہے ۔
(18) نائب امیر سپرد شدہ امور کو سر انجام دے گا ۔
(19) اگر کوئی جمعیت مقررہ وقت کے اندر بالائی جمعیت کے لئے نمائندوں کے چناؤ سے قاصر رہے تو امیر بالا کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنی طرف سے اس جمعیت کے نمائندے نامزد کرے ۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب