جمعیت علماء اسلام کا قیام جن مقاصد کے حصول کے لیے عمل میں لایا گیا وہ اتنے کامل اور مکمل ہیں کہ ان میں کسی دور میں بھی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ، البتہ بعض انتظامی امور میں نئے پیدا شدہ حالات کی وجہ سے بعض ترامیم کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے ۔خصوصا” مفکر اسلام مولانا مفتی محمود ؒ کی رحلت کے بعد حالات تیزی سے تغیر پذیر ہو ئے ۔ ان احوال کی وجہ سے وقتاٌفوقتاٌ ترامیم کایہ سلسلہ ضروری سمجھا گیا ۔ 8نومبر 1982ء حضرت مولانا عبدالکریم قریشی صاحب ؒ بیر شریف اور حضرت خواجہ خان محمد صاحب ؒ کی صدارت میں ہونے والے مجلس عمومی کے اجلاس میں ترامیم منظور کی گئیں۔ 9/10/11 نومبر 1992ء کو مدرسہ قاسم العلوم شیرانوالہ گیٹ لاہور میں ہونے والے مجلس عمومی کے اجلاس میں دستوری ترامیم کی ضرورت محسوس کی گئی ، البتہ دستور میں ترامیم واضافے کاکام مرکزی شوریٰ کے سپرد کر دیاگیا ۔
22/23 مارچ 1994ء کو حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب ؒ کی صدارت میں مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں حضرت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کی تجویز پر حضرت مولانا عبداللہ صاحبؒ بکھر کی صدارت میں ایک دستوری کمیٹی تشکیل دی گئی ۔
یہ ترامیم 23/24 اپریل 1994ء کو جامعہ مدنیہ لاہور میں قائم مقام امیر حضرت مولانا اجمل خان صاحب کی صدارت میں ہونےوالے شوریٰ کے اجلاس میں منظورکی گئیں۔
25/26 مئی 1997ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں دستور کاازسرنو جائزہ لینے کے لئے مرکزی ناظم عمومی مولانا عبدالغفور حیدری کی سربراہی میں ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ اس کمیٹی نے محنت شاقہ کے بعد یکم تا 4 نومبر 1997ء کو جامعہ مطلع العلوم کوئٹہ میں ہونے والے مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں ان ترامیم کی منظوری دی ۔ 9/10/11 جون 2001ء کو جامعہ اسلامیہ شاہ ولی اللہ قلات میں ہونے والے مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں دستوری ترامیم کاازسرنو جائزہ لیا گیا اور شوریٰ میں مسلسل 2 دن دستور کی ایک ایک شق پر تفضیلی بحث و تخمیص کے بعد ترامیم کی منظوری دی گئی ۔
12/13 جون 2001 ء کو قلات بلوچستان میں ہونے والے مرکزی مجلس عمومی کے اجلاس میں شوریٰ کی منظورکردہ ان ترامیم کو توثیق کے لئے پیش کیا گیا ۔ معمولی ترامیم کے بعد دستور کو آخری شکل دی گئی ۔ تاہم بعد کے پیش آمدہ حالات کے پیش نظر دستور میں چند ترامیم کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے 22/23/24 مئی 2004ء کو نتھیاگلی ضلع ایبٹ آباد میں مرکزی مجلس شوریٰ اور چاروں صوبائی عاملہ جات کے مشترکہ اجلاس میں مرکزی ناظم عمومی مولانا عبدالغفور حیدری کی سربراہی میں چاروں صوبائی نظمائے عمومی کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ اس کا اجلاس 2 اگست 2004ء کو اسلام آباد میں زیر صدارت مولانا عبد الغفور حیدری منعقد ہوا۔ اس میں ڈاکٹر خالد محمود سومرو ، مفتی عبد الستار ، مولانا گل نصیب خان ، مولانا تاج محمد خان ، اور خواجہ محمد زاہد نے خصوصی طور پر شرکت کی ۔
کمیٹی نے چند دستوری ترامیم مرتب کیں ۔ بعد میں ان تجاویز کو مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس 20/21 دسمبر 2004ء میں پیش کیا گیا ۔ حتمی منظوری کےلئے ان ترمیم کو مجلس عمومی کےاجلاس منعقدہ 10فروری 2005ء میں پیش کیا گیا ۔ معمولی ترامیم کے بعد دستور کو آخری شکل دی گئی ۔
مرکزی مجلس عمومی کا اجلاس جو 23/24 جمادی الثانی 1430ھ بمطابق 18/19 اپریل 2009 کو جامعہ مدنیہ لاہور میں امیر مرکزیہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کی صدارت میں منعقد ہوا میں ایک بار پھر دستور میں ترامیم کےحوالے سے فاضل ارکین نے زبانی اور تحریری اراء پیش فرمائیں طویل بحث کے بعد مرکزی مجلس عمومی نے دستور میں ترامیم کا اختیار مرکزی مجلس شوریٰ کو دے دیا ۔ 6 شعبان المعظم 1430ھ بمطابق 26 جولائی 2009 ء کو اسلام آباد میں مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں آٹھ رکنی دستوری کمیٹی تشکیل دی کمیٹی کا اجلاس 12/13 ذیقعدہ 1430ھ بمطابق 1/2 نومبر 2009 ء کو اسلام آباد میں مولانا عبد الغفور حیدری کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں کمیٹی کے اراکین مرکزی ناظم ملک سکندر خان ایڈووکیٹ مرکزی ناظم اطلاعات مولانا محمد امجد خان مرکزی ناظم مالیات الحاج شمس الرحمٰن شمسی بلوچستان کے ناظم عمومی مولانا مفتی عبدالستار سندھ کے ناظم عمومی مولانا ڈاکٹر خالد محمود سومرو ؒ خیبر پختونخواہ کےناظم عمومی مولانا شجاع الملک پنجاب کے ناظم عمومی مولانا افتخار حقانی نے ٓشرکت کی ملک بھر سے آنے والی قیمتی اراء کی روشنی میں ایک مسودو مرتب کیا گیا جو مجلس شوریٰ کے اجلاس جو اسلام آباد میں 14/15 ذیقعدہ 1430ھ بمطابق 3/4 نومبر 2009 ء کو امیر مرکزیہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کی صدارت میں منعقد ہوا میں پیش کیا گیا معمولی ترامیم کے بعد دستور کو آخری شکل دے دی گئی جو آپ حضرات کے سامنے ہے. اللہ تعالیٰ اس اہم کا م کے لیے سعی کرنے والے حضرات کو جزائے خیر عطاء فرمائے اور دستور کو جماعت کی ترقی کاباعث بنائے آمین ۔
(مولانا) عبدالغفور حیدری
ناظم عمومی جمعیت علماء اسلام پاکستان
حکومت ایک بار پھر اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 میں ترمیم کرنے جا رہی ہے جس سے دفاعی اداروں کو بے پناہ اختیارات ملیں گے جو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر ہیں۔ پہلے نیب کے اختیارات پر اعتراض تھا اور ان میں کمی کی گئی تھی، لیکن اب دفاعی ادارے کو کسی کو شک کی بنیاد پر 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار دیا جا رہا ہے جو سراسر غیر جمہوری عمل ہے،ملک میں سول مارشل لاء کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ، جو جمہوریت اور “ووٹ کو عزت دو” کی بات کرتے ہیں، آج اپنے ہی ہاتھوں جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ 26ویں ترمیم میں کچھ شقیں واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی، لیکن یہ نیا ایکٹ اسی ترمیم کی روح کے خلاف ہے۔ یہ آئین اور پارلیمنٹ کی توہین ہے کہ ایک دن آپ ایک فیصلہ کریں اور اگلے دن اسے نظر انداز کر دیں۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان
فیصلے اجلاس مرکزی مجلس شوری جے یو آئی پاکستان
میں اداروں کا احترام کرتا ہوں لیکن میری نظرمیں بھی ان کی پالیسیاں سیدھی نظرآئیں، میں نے بھی چالیس سال صحراؤں میں گذارے ہیں، آنکھیں بند کر کے بات نہیں کر رہا بلکہ مشاہدات کے ساتھ بات کرتا ہوں،اگر ہم یہ بات نہیں کریں گے تو قوم کے ساتھ خیانت ہوگی،آپ اپنا قبلہ درست کریں ہم آپ کو سر کا تاج بنا لیں گے۔قوم کی قدر کریں، آپ کے کرنل اور میرے عام کارکن کے پاس ایک ہی شناخت ہے، دونوں کے لئے ایک ہی آئین ہے۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا ڈی آئی خان میں ورکرز کنونشن سے خطاب
43ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چھبیسویں آئینی ترمیم پر قومی اسمبلی میں تاریخی خطاب