دارلعلوم دیوبند میں ثمر الترتیب کا قیام دراصل طلبہ کے اجتماعی تکرار اور سیاسی ذوق کی تربیت کا یہ پہلا قدم تھا اس کا دوسرا مرحلہ جمعیت الانصار کی تنظیم تھی ۔ 1910 ء میں حضرت شیخ الہند ؒ نے اس کی بنیاد دہلی میں رکھی اور مولانا حبیب الرحمٰن عثمانی کو امیر اور عبید اللہ سندھی ؒ کو ناظم جب کہ مولانا ابو احمد آف چکوال کو نائب ناظم مقرر کیا ۔ یہ ایک بہت بڑا سیاسی قدم تھا جس کو مرکز دارلعلوم سے باہر لے جانا پڑا بعد میں جمعیت الانصار نے نظارۃ العارف القرآنیہ کی شکل اختیار کر لی تھی ۔بظاہر یہ ایک دینی مدرسہ لیکن اس کے قیام کا مقصد، اس کا نصاب اور نصب العین وہی تھا جو پہلے دیوبند کے احاطے میں تھا اب دہلی کی مسجد فتح پوری کے حجرے میں ایک سیاسی اور انقلابی تربیت گاہ کا مرکز بن گیا ۔
جب انگریز کا تسلط برصغیر پر ہوا تو حضرت شیخ الہند ؒ نے دہلی کی دہلیز پر سامراجی قوتوں کے مقابلے میں جمعیت الانصار کی بنیاد رکھی ، نوجوانوں کی اس تنظیم نے انگریز سے جم کر مقابلہ کیا حالات کی نزاکتوں کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت مولانا عبید اللہ سندھی ؒ اور مولانا ابو الکلام آزاد ؒ نے اپنے شیخ کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے نوجوانوں کے اس نظم کو مختلف ناموں پر قائم رکھا بالآخر انگریز وطن عزیز سے بھاگنے پر مجبور ہوا ۔ جمعیت علماء معرض وجود میں آئی تو حضرت شیخ الہند ؒ کی اس تنظیم کو اپنے نظم کا حصہ بنایا اور دستور میں رضاکاروں کے اس نظم کو جمعیت کی روح قرار دیا جبکہ نظام اسلام کو بروئے کار لانے کیلئے انصار الاسلام کی تنظیم کو لازمی تصور کیا گیا ۔
ابتدائی دور میں ملیشیا میں ملبوس رضاکار اپنی ذمہ داری نبھاتے رہے بھر دستوری ترمیم کی وجہ سے وہی رضاکار سفید رنگ کی وردی میں کام کرتے تھے جبکہ موجودہ وردی کا رنگ خاکی ہے ۔
ویسے تو اس نظم کا جو بھی مرکزی سالار بنا ہے اس نے اپنی بساط کے مطابق ذمہ داری سر انجام دی ہے ۔ تاہم موجودہ مرکزی سالار انجنیئرعبدالرزاق عابد لاکھو کو پہلی مرتبہ 2000 ء میں قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ نے مرکزی سالار کے طور پر نامزد کیا ۔ اور 2001 ء میں ڈیڑھ سو سالہ خدمات دارلعلوم دیوبند کانفرنس کا انعقاد ہوا تو انجینئرعبدالرزاق عابد لاکھو کی قیادت میں دس ہزار رضاکاروں نے تاروجبہ میں سیکورٹی کی ذمہ داری سنبھالی ۔ پھر وہ دور آیا اسلام زندہ باد کانفرنسیں ہوئیں جس کی سیکورٹی کی ذمہ داری بھی مرکزی سالار انجنیئر عبدالرزاق عابدلاکھو نے سنبھالی ، ہر کانفرنس سے ایک دن قبل شہر بھر میں ہزاروں رضاکاروں کی ریلیاں نکالی جاتی تھیں ۔جب جمعیت علماء اسلام کی یوم تاسیس کے حوالے سے صدسالہ عالمی اجتماع کے انعقاد کا اعلان ہوا تو مرکزی سالار انجینئر عبدالرزاق عابد لاکھو نے اپنے مرکزی معاونین سلیم سندھی ، حاجی عبداللہ خلجی اور مفتی عزیز احمد اشرفی کے ساتھ ملک بھر کا ڈویژنل سطح پر دورہ کیا ۔ گلگت سے گوادر تک انصار الاسلام کے تربیتی کنونشن منعقد کئے اور صدسالہ عالمی اجتماع کیلئے ایک لاکھ رضاکاروں کا ہدف پورا کرنے کیلئے چار ماہ مسلسل دورے کئے بالآخرانجینئرعبدالرزاق عابد لاکھو کی قیادت میں پچاس ہزارسے زائد رضاکاروں نےصدسالہ عالمی اجتماع اضاخیل نوشہرہ میں سیکورٹی کی ذمہ داری سنبھالی جس کی مرہون منت الحمد اللہ صدسالہ عالمی اجتماع بحفاطت بخیر و عافیت کامیابی کے ساتھ صحیح سلامت اختتام پذیر ہوا ۔
اسی طرح 2001 ء سے 2010 ء تک وطن عزیز پاکستان سیلاب کی زد میں رہا تو مرکزی سالار نے اپنے ہزاروں رضاکاروں کے ساتھ دریائے سندھ کے بندوں کی حفاظت اور متاثرہ لوگوں کی امداد کے لئے کشتیوں میں سوار ہوکر اپنی ذمہ داری بھر پور جانفشانی سے ادا کی ۔
قائد جمعیت پر جب بھی دہشت گردوں نے خودکش حملے کئے تو رضاکاروں نے اپنی جان کی قربانی دے کر اپنے محبوب قائد کی حفاظت کی اور اس میں ہرنائی بلوچستان کے سالار شاہ محمد شہید نے کوئٹہ میں جام شہادت نوش فرمائی ۔
تنظیم میںشامل تمام رضاکاروں اور سالاروں کے پر وفارما اکٹھے کر کے ان کا بایو ڈیٹا کمپیوٹرائیزڈ کروایا اور مرکز کی سطح پر سب کو انصار الاسلام کا کارڈ جاری کیا ۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں مسائل پر بات چیت کے لئے پارلیمانی وفود بھیجنے کا مطالبہ کردیا،سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کو ملک کے لیے غیر ضروری سمجھنے سے زیادہ بڑی حماقت کوئی نہیں ہوسکتی ، لاپتہ افراد کے معاملے کی وجہ سے ملک میں عوامی نفرت بڑھ رہی ہے، اداروں پر اعتمادختم ہورہا ہے ، صوبوں کے وسائل پر قابض ہونے کی بجائے ان کے حقوق کوتسلیم کریں قبائلی اضلاع میں قیمتی معدنیات اور وسائل پر قبضہ کے لئے قبائل پر جنگ مسلط کی گئی ہے پارلیمینٹ میں تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت ہونی چاہئے،سیاستدانوں کوسائیڈ لائن کرنا ترک کردیں، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے معاملات ان کے حوالے کردیں حل نکل آئے گا تمام معاملات میں خود کو فیصل آباد کا گھنٹہ گھر یا امرت دھار سمجھ لینا خواہش ہوسکتی ہے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ۔
قا د یانی مبارک ثانی مقدمے کے حتمی فیصلے کو اناؤنس کیا ہے اور انہوں نے گزشتہ فیصلے جو چھ فروری کو اور پھر چوبیس جولائی کو ہوئے تھے ان کے تمام قابل اعتراض حصوں کو حذف کر دیا ہے میں اس بہت بڑی کامیابی پر پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں امت مسلمہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں تمام دینی جماعتوں کو ان کے کارکنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں
72 سال کا ہوگیا ہوں پہلی بار کسی عدالت میں پیش ہورہا ہوں،عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے آئے ہیں،مولانا فضل الرحمان
قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا لکی مروت میں امن عوامی اسمبلی سے خطاب
قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پشاور میں تاجرکنونشن سے خطاب