نظام تعلیم
(1) نظام تعلیم مکمل اسلامی ہو گا ۔
تعلیم کی بنیاد
(2) تعلیم کی بنیاد اسلام پر اور اسلام کی تاریخ اور مادری زبان کی اساس پر رکھی جائے گی ۔
حصول تعلیم
(3) دسویں (میٹرک) جماعت تک تعلیم بلکل مفت ہو گی۔ اوپر کے درجات میں بھی تعلیم کو سستا اور سہل الحصول کر دیا جائےگا اور بتدریج دس سال کے اندر تمام درجات میں مفت تعلیم کردینے کی کوشش کی جائےگی ۔
فنی تعلیم
(4) فنی اور سائنسی تعلیم کے ادارے بکثرت اور جگہ جگہ کھولے جائیں گے۔
حصول تعلیم میں رکاوٹ کا خاتمہ
(5) تعلیم کا دروازہ سب کے لئے یکساں طور پر کھلا رکھا جائے گا اور داخلوں پر کسی قسم کی رکاوٹ عائد نہیں رہنے دی جائے گی ۔
تعلیم بالغاں
(6) ان پڑھ بالغاں کی تعلیم کابھی وسیع پیمانہ پر ایسا انتظام کیا جائے گا کہ 5سال کے اندر کم ازکم ملک کی 4/1 بالغ آبادی بنیادی تعلیم سے بہرور ہو جائےگی اور بیس سال کے اندر اندر ملک میں کوئی بالغ ان پڑھ نہ رہنے پائے ۔
کسانوں اور مزدوروں کےبچوں کے لئے تعلیم کا انتظام
(7) دیہات میں کسان آبادی کی سہولت کے لئے اور شہروں میں کارخانوں کی مزدور آبادی کی سہولت کے لئے ان کے قریب ہی ثانوی (میٹرک) معیار تک تعلیم کا مفت انتظام کیا جائے گا ۔؎
غریبوں کے بچوں کے لئے حصول تعلیم کی سہولتیں
(8) غریب عوام کے بچوں کے لئے خاص سکول ہوں گے ان میںنصاب کی کتابیں ، اسٹیشنری کا سامان طالب علموں کو مفت دیا جائے گا اور ضروری سہولتیں بہم پہنچائی جائیں گی ۔
غریبوں کے بچوں کے لئے اعلی ٰ تعلیم کا انتظام
(9) سکولوں سے کامیاب ہونے والے غریبوں کے بچوں کی اعلیٰ فنی تعلیم کا مفت انتظام کیا جائے گا۔
اعلی ٰ تعلیمی اداروں کی حثیت
(10) اعلیٰ تعلیمی ادارے ادارے بااختیار اور منتخب انتظامیہ کی نگرانی میں کام کریں گے ۔
پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی حیثیت
(11) پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور حکومت ان کے انتظامات کی اس طرح نگرانی کرے کہ ان اداروں کی تعلیمی آزادی اور خودمختاری متاثر نہ ہو نے پائے۔
دینی تعلیمی ادارے
(12) دینی مدارس کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے ان کی ترقی میں زیادہ سے زیادہ مدد دی جائے گی ۔ ان کی اسناد سرکاری درسگاہوں کی اسناد کے برابر شمار ہوں گی اور ان مدارس کی ہر مشکل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔
نصاب تعلیم میں
(13) نصاب تعلیم میں ابتدائی درجات سے آخر تک قرآن مجید بامعنی و تفسیر ، سنت رسول ﷺ تاریخ صحابہ و اسلاف اور ضروری و بنیادی مسائل شرعیہ کو لازما” شامل کیا جائے گا ۔
نصاب تعلیم سے خارج
(14) نصاب تعلیم میں اسلامی عقائد ، عقیدہ ختم نبوت اور قرآن و سنت کے خلاف کوئی بات شامل نہیں ہونے دی جائے گی ۔
تعلیم گاہوں میں احترام دینی کا انتظام
(15) تعلیم گاہوں میں ارکان دین کی آدائیگی اور آحترام دین کی پابندی لازمی ہوگی ۔
بیرونی غیر مسلم مشنریز کے ادارے
(16) بیرونی عیسائیوں مشنوں و دیگر غیر مسلموں کے تعلیمی اداروںمیں سرکاری نصاب پڑھانا لازمی ہو گا ۔
ملک کی غیر مسلم اقلیت کے تعلیمی ادارے
(17) ملکی غیر مسلم اقلیتوں کی اپنی مذہبی تعلیم کے ادارہ جات کھولنےکا حق ہو گا لیکن ان میں مسلمان بچے بچیوں کا داخلہ ممنوع ہو گا ۔
اسلامی تعلیم عام تعلیمی اداروں میں
(18) عام تعلیمی اداروں میں اسلامی تعلیم لازمی ہوگی لیکن غیر مسلم اقلیتوں کے بچوں کے لئے لازم نہ ہوگی ۔
مخلوط تعلیم کی ممانعت
(19) مخلوط تعلیم کو ممنوع قرار دے دیا جائے گا۔
عورتوں کی تعلیم کاانتظام
(20) عورتوں کی تعلیم کے لئے اسلامی اصولوں کے مطابق الگ انتظام کیا جائے گا ۔
انگریزی زبان کی تعلیم
(21) انگریزی زبان کی تعلیم کو اختیاری مضمون کی حثیت میںرکھا جائے گا۔
عربی زبان کی تعلیم
(22) عربی زبان کو تعلیمی اداروں میں لازمی زبان کا مقام حاصل ہو گا ۔
علاقائی زبانیں
(23) علاقائی زبانوں کو ترقی دی جائے گی ۔
فنی وغیر فنی تعلیمی اداروں میں اضافہ و وسعت
(24) ملک میں تعلیمی ادارے ، اعلیٰ تعلیم کے ادارے ، فنی وسائنسی تعلیم کے ادارے ، زرعی و صنعتی تعلیم کے ادارے جگہ جگہ اور وسیع پیمانے پر کھولے جائیں گے اور ان کی حوصلہ افزائی اور سرپر ستی کی جائے گی۔
داخلہ کی پابندی ختم
(25) تعلیمی اداروں میں داخلہ اہلیت کی بنیاد پر ہو گا اور ان میں مقامی لوگوں کو شہری اور دیہی آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے گی ۔
ذریعہ تعلیم
(26) ملکی سطح پر ذریعہ تعلیم اردو ہوگا ۔
حکومت ایک بار پھر اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 میں ترمیم کرنے جا رہی ہے جس سے دفاعی اداروں کو بے پناہ اختیارات ملیں گے جو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر ہیں۔ پہلے نیب کے اختیارات پر اعتراض تھا اور ان میں کمی کی گئی تھی، لیکن اب دفاعی ادارے کو کسی کو شک کی بنیاد پر 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار دیا جا رہا ہے جو سراسر غیر جمہوری عمل ہے،ملک میں سول مارشل لاء کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ، جو جمہوریت اور “ووٹ کو عزت دو” کی بات کرتے ہیں، آج اپنے ہی ہاتھوں جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ 26ویں ترمیم میں کچھ شقیں واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی، لیکن یہ نیا ایکٹ اسی ترمیم کی روح کے خلاف ہے۔ یہ آئین اور پارلیمنٹ کی توہین ہے کہ ایک دن آپ ایک فیصلہ کریں اور اگلے دن اسے نظر انداز کر دیں۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان
فیصلے اجلاس مرکزی مجلس شوری جے یو آئی پاکستان
میں اداروں کا احترام کرتا ہوں لیکن میری نظرمیں بھی ان کی پالیسیاں سیدھی نظرآئیں، میں نے بھی چالیس سال صحراؤں میں گذارے ہیں، آنکھیں بند کر کے بات نہیں کر رہا بلکہ مشاہدات کے ساتھ بات کرتا ہوں،اگر ہم یہ بات نہیں کریں گے تو قوم کے ساتھ خیانت ہوگی،آپ اپنا قبلہ درست کریں ہم آپ کو سر کا تاج بنا لیں گے۔قوم کی قدر کریں، آپ کے کرنل اور میرے عام کارکن کے پاس ایک ہی شناخت ہے، دونوں کے لئے ایک ہی آئین ہے۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا ڈی آئی خان میں ورکرز کنونشن سے خطاب
43ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چھبیسویں آئینی ترمیم پر قومی اسمبلی میں تاریخی خطاب