تحریک آزادی ہند کے مجاہد مجلس احرار کے لیڈر
اسمبلی میں مغربی ایجنٹوں کو مسکت جواب دینے والے حاضر جواب انسان
تحریک ختم نبوت کیلئے جان کی بازی لگانے والے غازی قادیانیت کیلئے تلوار بے نیام
شیر سرحد، بابائے جمعیت ناظم عمومی جمعیت علمائے اسلام پاکستان
پیدائش 1896 وفات 1981
ولادت و تعلیم :
حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی جون 1896 کو بفہ ضلع مانسہر ہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام حکیم سید گل صاحب ہے۔1914میں مڈل کا امتحان پاس کیا اسی دوران ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد سے حاصل کرتے رہے اعلیٰ تعلیم کیلئے 1915ء میں دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے ۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب کے فیضان صحت سے فیضیاب ہوئے ۔ 1337ھ میں علامہ انور شاہ کشمیری سے دورہ حدیث پڑھ کر سند فراغت حاصل کی۔
درس و تدریس :
فراغت کے بعد مولانا حبیب الرحمن عثمانی مہتمم دارلعلوم دیوبند کے حکم پر دوسال معین مدرس کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبند میں پڑھاتے رہے ۔
سیاسی خدمات اور گرفتاری :
1931میں ہزارہ سے سیاسی کام کا آغاز کیا انگریز وں کے خلاف کام کرنے کے نتیجہ میں گرفتار ہوئے اور 1934ء کا پورا سال ایبٹ آباد اور بنوں کے جیلوں میں گذارا۔ 1933میں قادیانیوں کے خلاف گران قدر خدمات سر انجام دیں ۔ انگریز فوج میں بھرتی کے خلاف ‘احرار” سول نافرمانی کی تحریک میں شریک ہو کر 1942ء میں گرفتار ہوئے اور ایک سال ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں گزارا ۔
( سرحد کے علماء دیوبندسیاسی خدمات195)
جمعیت علمائے ہند میں شمولیت
1919میں جب جمعیت علمائے ہند وجود میں آئی تو حضرت ہزاروی نے نہ صرف جمعیت علمائے ہند میں شمولیت اختیار کی بلکہ ا س کی طلبا ء کی ایک شاخ( سٹوڈنٹ ونگ)جمعیت الطلبا کے نام سے قائم کی۔
(مولانا غلام غوث ہزاروی مذہبی وسیاسی خدمات40)
جمعیت علماء ہندمیں شرکت اورکردار
1930کوکانگریس کا اجلاس بفہ (ضلع مانسہرہ )میں منعقد ہوا جس میں مولانا غلام غوث ہزاروی نے بھی شرکت کی اجلاس کوحکیم عبدالسلام ہری پور،غلام ربانی لودھی،مولانا خان میرہلالی پشاوری اور ملک فقیراخان آف ملک پور نے ترتیب دیا تھا بفہ اور اس کے گردونواح میں ملک فقیراخان اور مولانا غلام غوث ہزاروی کی وجہ شہرت سے جلسہ بڑاکامیاب ہوا۔ مئی1931کو مولانا غلام غوث ہزاروی کو پشاور کانگریس کی مقامی رضاکاروں کی کور کاحولدار منتخب کیاگیا۔ ستمبر1931کی سی آئی ڈی رپورٹ کے مطابق مولانا غلام غوث ہزاروی کی تجویز پر ہزارہ کے لئے ’’افغان جرگہ‘‘کی ایک شاخ بنائی گئی جس کا ’’امیر‘‘مولانا غلام غوث ہزاروی کوچناگیا جرگہ تمام جرائم کے فیصلے شریعت کے مطابق کرتا تھا ۔سول نافرمانی کی تحریک میں جب انگریز حکومت نے حاجی فقیراخان کو گرفتار کیا تو28ستمبر1931کو مولانا ہزاروی نے بفہ میں ایک بہت بڑی ریلی منعقد کی اور اپنی تقریر میں لوگو ں سے کہا کہ تمام لوگ ایبٹ آبادجیل کے سامنے احتجاجاًبیٹھ جائیں اور اس وقت تک نہ اٹھیں جب تک فقیراخان کے تمام مطالبوں کو مان نہ لیا جائے اس پرپچاس پچپن آدمی جھنڈے اُٹھائے ہوئے میاں عبدالقیوم بفوی کی قیادت میں ایبٹ آباد کی طرف چل پڑے لیکن ایبٹ آباد کی حدود میںداخل ہونے پر ان کا راستہ روک لیاگیا
8ستمبر1934کومسجد قاسم علی خان پشاور میں مولانا ہزاروی نے جمعیت علمائے ہند کی پالیسی کے حق میں مفصل دلائل دیئے 7دسمبر1934کو جامع مسجد بفہ میں مولاناہزاروی نے خطاب کرتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ وہ متحد ہوکر شریعت بل کو دستورساز کونسل کے اجلاس میں پاس کرانے کی کوشش کریں
3جولائی1935کو مردان میں مولانا ہزاروی نے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ وہ متحد ہوکر شریعت بل کو اگلی دستور ساز کونسل کے اجلاس میں پاس کرانے کی کوشش کریں۔ 22فروری1940کی رات کو پشاور میں جمعیت علمائے ہند کا اجلاس ہواجس میں جمعیت کے چھ سو رضاکاروں نے شرکت کی ان میں دوسوپندرہ افراد مجلس احرارکے تھے مولانا ہزاروی نے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ جمعیت علمائے ہند نے اعلان کیاہے کہ انگریزوں کی فوج اور پولیس میں ملازمت مسلمانوں کیلئے حرام ہے ہم اس اعلان کے ساتھ متفق ہیں اور اس پر ثابت قدم رہیں گے
(مولانا غلام غوث ہزاروی مذہبی وسیاسی خدمات44) جمعیت علمائے اسلام کا قیام
اکتوبر 1956کو ملتان میں علماء کا ایک کنونشن منعقد ہواجس میں پانچ سو علمائے کرام نے شرکت کی اس اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام کی تشکیل نو ہوئی مولانا احمد علی لاہوری کو امیرمنتخب کیاگیا مولانا غلام غوث ہزاروی کو ناظم اعلی اور مولانا مفتی محمود کو نائب امیر مقرر کیا گیا۔
جمعیت کی مقبولیت
مولاناہزاروی نے مستحکم بنیادوں پراپنی پارٹی کو منظم کیا اور بیرون دہلی دروازہ ایک پرانی عمارت کے چھوٹے سے کمرے میں جمعیت کا مرکزی دفتر قائم کیا گیادوماہ کی محنت کے بعد جمعیت کی سینکڑوں شاخیں بن گئیں اور بڑے بڑے شہروں میں دفاتر کھول کر کام شروع کردیاگیا۔
اکابرینِ جمعیت انتخابی میدان میں
مئی1962کوجدید آئین کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا اعلان کردیاگیا امیدوار نئے دستور کی روسے ذاتی بنیادوں پر ہی انتخابات میں حصہ لے سکتے تھے ۔ مفتی محمود اور مولانا غلام غوث ہزاروی کی بالترتیب قومی اور صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا۔ نظام العلماء نے پاکستان کے مسلمان عوام اور بالخصوص ارکان بنیادی جمہوریت کو ان انتخابات کی اہمیت سے آگاہ کیا اور ہدایت کی اہل دین کو منتخب کرنے کی کوشش کریں ۔
مولانا ہزاروی کی کامیابی
اپریل 1962کے غیر جماعتی بنیادوں پر کئے گئے انتخابات میں مولانا ہزاروی نے مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلی پی ایف 33ہزارہ کی سیٹ پر الیکشن لڑااور بھاری اکثریت سے ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔
(مولانا غلام غوث ہزاروی مذہبی وسیاسی خدمات101)
صوبائی اسمبلی اور مولانا غلام غوث ہزاروی
قومی اسمبلی کے اجلاس کی طرح صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس بھی بلائے گئے ۔ 9جون 1962کو مغربی پاکستان اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا ۔ اور چند دن ابتدائی کارروائیوں کے بعد ۱۸ جون کو بجٹ اجلاس شروع ہوا۔اس اجلاس میں مولانا غلام غوث نے معرکۃا لآ راتقریر فرمائی ۔(عہدسازقیادت85)
متحدہ اسلامی محاذ کاقیام
دسمبر1965میں مولانا عبداللہ درخواستی کو اپوزیشن لیڈرنوابزادہ نصراللہ خان کا ایک پیغام ملا جس میں ان سے (جمعیت سے)متحدہ محاذمیں شمولیت اور اتحاد کی اپیل کی گئی تھی چنانچہ اس مسئلے پر غوروخوض اور جماعتی فیصلے کے لئے 20دسمبر1965کو قاسم العلوم ملتان میں مولانا عبداللہ درخواستی کی زیر صدارت جمعیت کی مجلس شوری کا اجلاس ہوااجلاس میں تعاون کے فیصلے کے بعدمولانا مفتی محمود، مولاناہزاروی اورڈاکٹر احمد حسین کمال پر مشتمل سہ رکنی کمیٹی قائم کی گئی ۔
یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں البتہ متحدہ سیاسی محاذ کے بعد دینی جماعتوں کے مختلف مکتبہ فکر کے علما ء کی طرف سے ایک محاذبنانے کافیصلہ ہواجس کا نام’’ متحدہ اسلامی محاذ ‘‘رکھاگیا جس کا پہلا کنونشن 28/29 مئی 1966کو لاہور میں ہوا اسلامی متحدہ محاذمیں شریک جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام ،مجلس احرار ،جمعیت اہل حدیث،مجلس تحفظ ختم نبوت،تنظیم اہل سنت،جمعیت اتحاد القراٗ،کوثرنیازی کی انجمن تحفظ پاکستان ،شامل تھیں ۔ شیخ حسام الدین صدرمجلس احرارکو اس محاذ کاصدر اور مولانا غلام غوث ہزاروی کو ناظم عمومی منتخب کیا گیا۔یہ محاذکوئی دینی خدمت انجام نہ دے سکااور خوداپنی موت آپ مرگیا۔ (مولانا غلام غوث ہزاروی مذہبی وسیاسی خدمات144،ازسہیل اعوان)
بابائے جمعیت
1970کے انتخابات میں مولانا غلام غوث ہزاروی نے پورے ملک میں الیکشن مہم چلائی پورے ملک کے دورے کئے جمعیت کا پیغام پہنچایا اور جمعیت پر لگائے گئے الزامات کا منہ توڑ جواب دیا مولانا اپنی پارٹی کے ایک مقرر کی حیثیت سے بہت سے عوامی جلسوں سے خطاب کیاانہی خدمات کے سلسلے میں مولانا کو’’ بابائے جمعیت ‘‘کا خطاب دیاگیا۔
(مولانا غلام غوث ہزاروی مذہبی وسیاسی خدمات159،ازسہیل اعوان)
1970کے الیکشن
1970کے انتخابات میںجمعیت علماء اسلام نے صوبہ سرحدسے قومی اسمبلی کی چھ سیٹیں حاصل کیںاور بلوچستان سے ایک سیٹ حاصل کی۔7دسمبر1970کوصوبائی اسمبلی کے انتخابات بھی مکمل ہوگئے مولانا غلام غوث ہزاروی نے ہزارہ کی ایک سیٹ سے نمایاں کامیابی حاصل کی مشرقی پاکستان میںعوامی لیگ کومکمل اکثریت حاصل ہوئی پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی کوبلوچستان اورسرحدمیں نیپ اورجمعیت کواکثریت ملی سرحد میں جمعیت کو5اوربلوچستان میں3سیٹیں ملیں
وفات
حضرت ہزاروی جامع مسجد بھوسہ منڈی صدرراولپنڈی میں خطابت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔وفات سے چار دن قبل30جنوری1981کوجمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایایہ میری زندگی کا آخری جمعہ ہے۔موت
سے دوتین روز قبل متعددحضرات سے آپ نے فرمایا کہ اب میں جارہاہوں کوئی غلطی ہوئی ہو تو معاف کرنااسی طرح گھر والوں سے بھی معافی چاہتے اور وصیت کرتے ہوئے3فروری1981کورب یسر ولا تعسروتمم بالخیرپڑھا اس کے بعد کلمہ طیبہ پڑھا اور جان جانِ آفریں کے سپرد کردی4فروری کوتاریخی نمازجنازہ کے بعد آبائی قبرستان بفہ میں سپرد خاک کردئے گئے۔رحمہ اللہ تعالی علیہ
حکومت ایک بار پھر اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 میں ترمیم کرنے جا رہی ہے جس سے دفاعی اداروں کو بے پناہ اختیارات ملیں گے جو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر ہیں۔ پہلے نیب کے اختیارات پر اعتراض تھا اور ان میں کمی کی گئی تھی، لیکن اب دفاعی ادارے کو کسی کو شک کی بنیاد پر 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار دیا جا رہا ہے جو سراسر غیر جمہوری عمل ہے،ملک میں سول مارشل لاء کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ، جو جمہوریت اور “ووٹ کو عزت دو” کی بات کرتے ہیں، آج اپنے ہی ہاتھوں جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ 26ویں ترمیم میں کچھ شقیں واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی، لیکن یہ نیا ایکٹ اسی ترمیم کی روح کے خلاف ہے۔ یہ آئین اور پارلیمنٹ کی توہین ہے کہ ایک دن آپ ایک فیصلہ کریں اور اگلے دن اسے نظر انداز کر دیں۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان
فیصلے اجلاس مرکزی مجلس شوری جے یو آئی پاکستان
میں اداروں کا احترام کرتا ہوں لیکن میری نظرمیں بھی ان کی پالیسیاں سیدھی نظرآئیں، میں نے بھی چالیس سال صحراؤں میں گذارے ہیں، آنکھیں بند کر کے بات نہیں کر رہا بلکہ مشاہدات کے ساتھ بات کرتا ہوں،اگر ہم یہ بات نہیں کریں گے تو قوم کے ساتھ خیانت ہوگی،آپ اپنا قبلہ درست کریں ہم آپ کو سر کا تاج بنا لیں گے۔قوم کی قدر کریں، آپ کے کرنل اور میرے عام کارکن کے پاس ایک ہی شناخت ہے، دونوں کے لئے ایک ہی آئین ہے۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا ڈی آئی خان میں ورکرز کنونشن سے خطاب
43ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چھبیسویں آئینی ترمیم پر قومی اسمبلی میں تاریخی خطاب