(1) ہر جمعیت کی مجلس عاملہ اس کے عہدیداروں پر مشتمل ہوگی ۔
(2) اس ابتدائی جمعیت علماء اسلام کی تشکیل کے لیے کم از کم بیس ارکان ضروری ہوں گے خواہ چند حلقے ملاکر تشکیل دی جائے ۔
(3) تحصیل کی سطح پر جمعیت کے قیام کے لئے ضروری ہوگا کہ اس تحصیل میں کم از کم پانچ ابتدائی جمعیتیں موجود ہوں ۔ ورنہ ابتدائی جمعیتون کا الحاق براہ راست صوبے سے ہوگا۔
(4) ہر جمعیت کا امیر ماتحت جمعیت کے عہدیداوں اور ارکان کے خلاف حسب ضرورت کاروائی کر سکتا ہے اور فیصلے کے خلاف اپیل ایک ماہ کے اندر امیر بالا کے پاس کی جاسکتی ہے ۔
(5) کوئی جمعیت اگر ضروری سمجھے تو ملک یا علاقہ کے سربرآوردہ علماء یاصلحاء میں ایک یا اس سے زائد ، حسب ضروت سرپرست مقرر کر سکتی ہے جن سے غیر معمولی امور میں مشورہ کیاجاسکے اور یہ سرپرست اس سطح کی جمعیت کی مجلس شوریٰ کے رکن متصور ہوں گے ۔
(6) مجلس عمومی ، خفیہ پرچی (بیلٹ پیپر) کے ذریعہ آزادانہ رائے سے امیر و ناظم عمومی منتخب کرے گی ۔ باقی عاملہ امیر و ناظم عمومی ، باہمی مشورہ سے نامزد کریں گے ۔ مرکز وصوبہ میں نصف تعداد علماٰء کا ہونا ضروری ہے ۔
(7) ہر سطح پر جمعیت کی مجلس عمومی کا کوئی رکن کسی بھی عہدیدار کے خلاف ایک تہائی ارکان کے دستخطوں کے ساتھ عدم اعتماد کی تحریک پیش کرسکتا ہے ، البتہ اس کی منظوری دو تہائی ارکان کی اکثریت سے ہوگی ۔
(8) ماتحت جمعیت کے کالعدم ہونے کی صورت میں کالعدم عاملہ کا امیر بالائی جمعیت کو آگاہ کرے گا۔ بالائی جمعیت دو ماہ کے اندر ماتحت جمعیت کی عاملہ کا انتخاب کرائے گی ۔ مرکزی جمعیت کالعدم ہونے کی صورت میں مرکزی امیر خود بخود ناظم انتخاب بن جائے گا جو دو ماہ کے اندر مجلس عمومی بلا کر نئے انتخابات کرائے گا ۔
عمران خان کےخلاف اسمبلی کی اکثریت عدم اعتماد کرچکی ہے،عمران خان مزید اس ملک کےقانونی وزیراعظم نہیں رہے،بلکہ صدر اورعمران خان آئین شکنی کےمرتکب ہوئےہیں،اب آئین کا تقاضہ ہیکہ آرمی چیف اورسیکیورٹی ادارے انہیں مزیدبطور وزیراعظم ڈیل نہ کریں
چناب نگر چنیوٹ: قائدِ جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن کا چالیسواں سالانہ تحفظ ختمِ نبوّة کانفرنس سے خطاب
جمعیة علماء اسلام پاکستان افغانستان میں امارت اسلامی طالبان افغانستان کی بیس سالہ طویل جہاد کی کامیابی پر مبارکباد پیش کرتی ہے جمعیت نے روز اول سے امریکہ اور ناٹو افواج کے افغانستان پر حملے کو جارحیت اور تجاوز قرار دیا تھا اور طالبان کی طرف سے مزاحمت کو جائز دفاع قرار دیا تھا
گھریلو تشدد اور وقف املاک کے حوالے سے پارلیمنٹ میں زیر غور دونوں بل آئین سے متصادم ہیں،گھریلو تشدد کے خاتمے کے حق میں ہیں لیکن موجودہ قانون سے خاندانی زندگی تباہ و برباد ہوگی،اس بل میں قرآن و سنت کے منافی شقیں شامل کی گئی ہیں
گھریلو تشددبل کیخلاف دینی طبقات کومتحد کرنے قائد جمعیت سرگرم عمل