رضاکارانہ تنظیم ، جماعتوں کی روح تصور کی جاتی ہے ۔ اس لئے نظام اسلام کو بروئے کا لانے کے لئے انصار الاسلام کی تنظیم بے حد لازمی ہے جس کے لئے درج ذیل ضوابط طے کیے گئے ہیں ۔
(1) ہر مسلمان پابندصوم و صلوٰۃ ، مستعد اور باہمت نوجوان جو جمعیت علماءٰ اسلام کا رکن ہو انصار الاسلام کا رکن بن سکے گا ۔
(2) انصار الاسلام کا نظام جمیعت کے ماتحت ہو گا ، البتہ مرکزی سالار اپنا خاص نظام ترتیب بنا سکے گا جس کی منظوری امیر مرکزیہ بشمول مجلس شوریٰ سے ضروری ہوگی ۔
(الف) انصار الاسلام کے عہد یدار حسب ذیل ہوں گے
مرکزی سالار / صوبائی سالار / ضلعی سالار / مقامی سالار / تحصیل سالار
(ب) مرکزی صوبائی اور ضلعی سالار اپنی سہولت کے لئے اپنی صوابدید پر معاونین کا تقرر کر سکیں گے ، لیکن یہ معانین معلقہ مجلس عاملہ کے رکن نہیں ہوں گے ۔
(3) انصار الاسلام کی وردی حسب ذیل ہوگی ۔
خاکی رنگ کی دو پاکٹوں والی قمیض اور شلوار ۔ گرم کپڑے کی گول خاکی ٹوپی جس پر دھاری دار بیج ہو گا اور سیا ہ رنگ کا جوتا ۔
(4) تربیت یافتہ رضاکاروں کے لئےپٹی دہری ہوگی ۔
(5) انصار الاسلام کے بیج پر خواہ کپڑے کا ہو یا کسی اور چیز کا عہدہ اور حلقہ بھی درج ہو گا ۔
(6 ) کسی سطح پر انصار الاسلام اپنی فوری ضرورت کے لئے رقم جمع کرنا چاہیں تو متعلقہ امیر کی اجازت سے کر سکتے ہیں ۔بشرطیکہ جمعیت علماء اسلام کی رسید پر وصول کر کے مقامی خزانے میں جمع کرانے کے بعد آمد و خرچ کاباضابطہ حساب رکھا جائے ۔
(7) ہر سطح کا سالار ہر ماہ کی دس تاریخ تک اپنی کارکردگی کی رپورٹ اپنی سطح کے امیر کو پیش کرے گا ۔
(8) ہر اجتماع اور کانفرنس کے موقع پر اس کی نوعیت کےمطابق ابتدائی تحصیل ، ضلعی ، صوبائی رضاکار اجتماع میں اجتماع کے ذمہ دار حضرات کےمشورہ سے شریک ہوسکیں گے ۔
(9) انصار الاسلام کے ہفتہ وار ،ماہوار، سہ ماہی ، ششماہی اجتماعات اور باہمی تبادلہ خیالات و ترتیب کے لئے بالائی سالار ہدایا ت جاری کر سکیں گے ۔
(10) اجتماعات یا خاص مواقع پر فرائض کی انجام دہی کے وقت کوئی ماتحت سالار یا رضاکار فرائض سے غفلت برتنے ہوئے پایا جائے گا تو اس موقع کا نگران یا بالائی سالار اس سالار یا رضاکار کو معطل کرسکے گا ۔ اور اس کی جگہ ذمہ دار کسی بھی دوسرے سالار یا رضاکار کو سونپ سکے گا اور اس کی اطلاع اس سطح کی جمعیت کے امیر کو دے گا جو واقعہ کی تحقیق کے بعد اسے بحال یاسکبدوش کرسکے گا۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب