جمعیت علماء اسلام پاکستان کے اغراض و مقاصد حسب ذیل ہوں گے ۔
(1) علماء اسلام کی رہنمائی میں مسلمانوں کی منتشر قوتوں کو جمع کرکےاقامت دین اور اشاعت اسلام کے لئے جدوجہد کرنا ۔ نیز اسلام اور مرکز اسلام یعنی جزیرۃ العرب اور شعائر اسلام کی حفاظت کرنا ۔
(2) قرآن مجید واحادیث نبویہ علی صاحبہاالتحیتہ والسلام کی روشنی میں نظام حیات کے تمام شعبوں ، سیاسی ، مذہبی ، اقتصادی ، معاشی اور ملکی انتظامات میں مسلمانوں کی راہنمائی اور اس کے موافق عملی جدوجہد کرنا ۔
(3) پاکستان میں صحیح حکومت اسلامیہ برپا کرنا اور اسلامی عادلانہ نظام کے لئے ایسی کوشش کرنا جس سے باشندگان پاکستان ایک طرف انسانیت کش سرمایہ داری اور دوسری طرف الحاد آفریں اشتراکیت کے مضرات اثرات سے محفوظ رہ کر فطری معاشرتی نظام کی برکتوں سے مستفید ہوسکیں ۔
(4) مملکت پاکستان میں ایک ایسے جامع اور ہمہ گیر نظام تعلیم کی ترویج و ترقی کے لئے سعی کرنا جس سے مسلمانوں میں خشیت الٰہی ، خوف آخرت ، پابندی ارکان اسلام اور فریضہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی انجام دہی کی صلاحیت پیدا ہو سکے ۔
(5) مسلمانان پاکستان کے دلوں میں جہاد فی سبیل اللہ ، ملکی دفاع اور استحکا م اور سالمیت کے لئے جذبہ ایثار قربانی پیدا کرنا ۔
(6) مسلمانوں میں مقصد حیات کی وحدت فکر وعمل کی یگانگت اور اخوت اسلامیہ کو اس طرح ترقی دینا کہ ان سے صوبائی ، علاقائی ِ، لسانی اور نسلی تعصبات دور ہوں
(7) مسلمانان عالم سے اقامت دین ، اعلاء کلمتہ اللہ کے سلسلے میں مستحکم روابط کا قیام۔
(8) تمام محکوم مسلم ممالک کی حریت و استقلال اور غیر مسلم ممالک کی مسلم اقلیتوں کی باعزت اسلامی زندگی کے لئے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کرنا
(9) تحریر وتقریر اور دیگر آئینی ذرائع سے باطل فرقوں کی فتہ انگیزی مخرب اخلاق اور مخالف اسلام کاروئیوں کی روک تھام کرنا۔
(10) تحریر وتقریر اور دیگر آئینی ذرائع سے باطل فرقوں کی فتنہ انگیزی مخرب اخلاق اور مخالف اسلام کاروائیوں کی روک تھام کرنا۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب