(1) ہر سطح کی جمعیت کی مجلس عمومی اس جمعیت کا سب سے زیادہ بااختیار ادارہ ہوگا۔
(2) مجلس عمومی کے سامنے عاملہ و مجلس شوریٰ جواب دہ ہوں گی اور اس کے فیصلے سب پر حاوی ہوں گے ۔
(3) مرکزی مجلس عمومی جمعیت کے اغراض ومقاصد کی انجام دہی کے لئے موقف ، پالیسی اور طریق کا متعین کرے گی ۔
(4) مرکزی مجلس عمومی ہی دستوری دفعات کے وضع کرنے اور اس میں ترمیم و تنسیخ کی مجاز ہو گی ۔
(5) مجالس کے فیصلے سادہ اکثریت سے ہوں گے ، البتہ دستوری دفعات کی ترمیم و تنسیخ کے لئے مرکزی مجلس عمومی کے 3/2 ارکان اکثریت لازم ہوگی ۔
(6) مجلس عمومی جمعیت کے بجٹ کااجراء کرے گی اور سال گزشتہ کے حسابات کی منظوری دے گی ۔
(7) مرکزی مجلس عمومی کا اجلاس سال میں کم از کم ایک بار صوبائی مجلس عمومی کا چھ ماہ میں ایک بار اور ضلعی مجلس عمومی کا چار ماہ میں ایک بار تحصیل مجلس عمومی کاتین ماہ میں ایک بار اور ابتدائی جمعیت کی مجلس عمومی کا مہینے میں ایک بار ہونا لازمی ہوگا ۔
(8) مرکزی مجلس عمومی کا اجلاس ڈیڑھ سال تک ، صوبائی ِمجلس عمومی کا ایک سال تک اور ضلعی مجلس عمومی کا چھ ماہ تک تحصیل مجلس عمومی کا اجلاس چار ماہ تک اور ابتدائی جمعیت کی مجلس عمومی کا اجلاس دو ماہ تک طلب نہ کرنے کی شکل میں اس سطح کی مجلس عاملہ کالعدم ہوجائے گی کسی بھی سطح کی عاملہ کے کالعدم ہونے کی صورت میں بالائی جمعیت ناظم انتخابات کرائے گا۔
(9) مرکزی و صوبائی مجلس عمومی کے معمول کے اجلاسوں کی تاریخ انعقاد سے کم از کم ایک ماہ قبل اور ضلعی مجلس عمومی کے اجلاسوں کی تاریخ انعقاد سے 15 یوم قبل تحصیل مجلس عمومی کے اجلاس کے انعقاد سے 5 یوم قبل تحصیل ومجلس عمومی کےاجلاسوں کے انعقاد سے 10 یوم قبل جبکہ ابتدائی جمعیت کے مجلس عمومی کے اجلاسوں کے انعقاد سے 5یوم قبل ناظم عمومی ہر رکن کے پاس تحریری اطلاع نامہ بھیجے گا۔ جس میںوقت مقام اجلاس اور پیش نامہ (ایجنڈا) درج ہو گا ۔
(10) اگر ایک تہائی ارکان کے دستخطوں سے انعقاد اجلاس کا تحریری مطالبہ ناظم عمومی کے پاس بھیجا جائے تو مجلس عمومی کا خصوصی اجلاس انہی ارکان کے پیش کردہ ایجنڈے کے مطابق طلب کر لیا جا ئے گا ۔
اس اجلاس کاپیش نامہ تاریخ اجلاس سے کم از کم پندرہ دن قبل جاری ہو جائے گا ، البتہ ہنگامی اجلاس میں اگر امیر جمعیت کو چاہے تو کم مدت میں بھی اجلاس طلب کیا جا سکتا ہے ، لیکن وقت اگر اس کی گنجائش نہیں رکھتا تو مجلس شوریٰ کا اجلاس بلاکر فیصلہ کیا جائے گا۔اگر کوئی رکن تجویز کرنا چاہے تو اسے ناظم عمومی کے پاس دس دن قبل مع عبارت تجویز بھیج دینا ضرور ی ہو گا ۔ امیر فوری طور پر ضرورکوئی تجویز پیش کرنے کی اجازت بھی دے سکتا ہے ۔
(11) مرکزی مجلس عمومی کی سالانہ فیس رکنیت 100 روپے ، صوبائی کی 50 روپے ، ضلعی کی 25 روپے اور تحصیل کی 20 روپے جبکہ ابتدائی مجلس عمومی کے لئے 10 روپے ہوگی ۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب