تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفی کے عظیم قائد
جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر
جامعہ مخزن العلوم خانپور کے بانی و مہتمم
پیدائش 1890 وفات1994
ولادت و تعلیم:
مولانا عبداللہ درخواستی بروز جمعہ محرم الحرام 1313ھ جولائی1898 ء کو بسیت درخواست تحصیل جانپور ضلع رحیم یار خان میں ہوئی ۔ آپ کے ولد حافظ محمود الدین اپنے عہد کے ممتاز عالم دین اور حفاظ میں سے تھے ۔ آپ نے تمام دینی تعلیم اپنے والد بزرگوار حافظ محمود الدین اور حضرت خواجہ غلام محمد دین پوری کے زیر سایہ مکمل فرمائی ۔ درس نظامی کے بعد دورہ حدیث دین پور میں حضرت شیخ الہند کے شاگرد مولانا عبدالغفور حاجی پوری اور شیخ الحدیث حضرت مولانا غلام صدیق حاجی پوری سے پڑھ کر سند فراغت حاصل کی آپ کی دستار بندی حضرت خواجہ خلیفہ غلام محمد دین پوری نے اپنے مبارک ہاتھ سے فرمائی ۔
درس و تدریس :
آپ نے مختلف مدارس میں درس کے بعد ۱۹۴۱ء میں اپنا قدیمی مدرسہ مخزن العلوم درخواست سے خانپور ضلع رحیم یار خان منتقل کیا جلد ہی پوری ریاست بھاولپور میں مخزن العلوم کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی اور پھر یہ پاکستا ن کی مثالی درس گاہوں میں شامل ہوگیا ۔
تحریکات میں حصہ اور قید و بند کی آزمائشیں :
مولانا عبداللہ درخواستی نے 1953 کو تحریک ختم نبوت میں قائدانہ کردار ادا کیا اور ملک کے چپے چپے کا دورہ کیا اور اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر گیا ۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی میں بھی آپ سرگرم رہے اور حکومت وقت کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ۔
مجلس تحفظ ختم نبوت کی سرپرستی
1953ی تحریک ختم نبوت میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ ۱۹۵۴ء میں مجلس تحفظ ختم نبوت کی بنیاد رکھی گئی تو آپ کو اس مجلس کا سرپرست بنایا گیا۔
حضرتؒ اور تحفظ ختم نبوتؐ
1952ء میں آپ حج پر تشریف لے گئے ۔ مدینہ منورہ جا کر روضہ اقدس پر حاضر ہو کر مراقب ہوئے اور حضوری میں رہنے کی اجازت چاہی۔ رات کو خواب میں زیارت سے مشرف ہوئے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پاکستان میں میری نبوت کو چیل اور کتے نوچ رہے ہیں، ان سے تحفظ ختم نبوت کے لئے مقابلہ کرو اور میرے نواسے عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو میرا پیغام پہنچا دو۔
اس کے بعد آپ فوراً پاکستان واپس تشریف لائے اور خان گڑھ میں جا کر حضرت عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو حضور ﷺ کا پیغام اور سلام پہنچایا۔ تذکرہ حافظ الحدیث حضرت مولانا عبداللہ درخواستی 62
جمعیت علمائے اسلام کی امارت
22فروری1962ماہ رمضان میںاچانک نظام اعلماء کے امیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری کاسانحہ وفات پیش آیا۔نظام العلماء کے لئے اب سب سے بڑا مرحلہ اپنے لئے ایسے قائد کی تلاش و انتخاب تھا جو حضرت مولانا احمد علی لاہوری مرحوم کی جگہ لے سکے ۔ اور ظاہر ہے کہ علماء کی ایسی جماعت جو شریعت و طریقت کی جامع اور جہاد زندگی کے حریت آگین راستہ کی گامزن تھی ایک ایسے رہنما کی ضرورت مند تھی جس میں بیک وقت۔
درکفے جام شریعت درکف سندان عشق
کی خصوصیات ہوں ۔ بالا آخر21 مارچ1962 کو نظام العلماء کا مرکزی اجلاس لاہور میں منعقد ہوا جس میں دور نزدیک کے سینکڑوں علماء نے شرکت کی اور سب کی نگاہ امارت کے لئے حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب درخواستی پر پڑی ۔ (عہدسازقیادت79)
جمعیت علمائے اسلام کااجلاس
28 اکتوبر1963کو لاہور میں جمعیت علماء اسلام کا مرکزی اجلاس ہوا، اور نئے عہدہ داروں کا انتخاب عمل میں آیا۔
امیر حضرت مولانا عبداللہ درخواستی منتخب ہوئے ۔ نائب امیر مولانا مفتی محموداور مولانا عبیداللہ انور۔ ناظم اعلیٰ مولانا غلام غوث ہزاروی معاون ناظم مولانا حامد میاں اور مولانا عبدالواحد گوجرانوالہ ۔خازن مولانا محمد اکرم صاحب۔ اس اجلاس میں جمعیت نے مندرجہ ذیل امور پر قراردادیں منظور کیں ۔
1۔ موددوی صاحب کی جماعت کے اجتماع میں ہلڑبازی اور اقدام قتل کی مذمت ۔
2۔ عائلی قوانین کی تنسیخ کا مطالبہ
3۔ پریس آرڈ نینس اور یونیورسٹی آرڈنینس منسوخ کرنے کا مطالبہ ۔
4۔ سیاسی قیدیوں کی رہائی اور ان کو انتخاب میںحصہ لینے کی اجازت دینے کا مطالبہ ۔ (عہدسازقیادت95)
وفات :
19 ربیع الال1415ھ مطابق 28 اگست 1994 کو کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے جان جان آفرین کے سپرد کر دی ۔ 29اگست1994 کو لاکھوں افراد نے آپ کی نماز جنازہ اداکی اور دین پور کی تاریخی قبرستان میں حضرت خلیفہ غلام محمد اور امام انقلاب حضرت مولانا عبیداللہ سندھی اور دیگر بزرگوں کے جوار میں آسودہ خاک ہوئے۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب