جانشین حضرت لاہوری امام الھدی اُمت مسلمہ کے بے باک اور نڈر رہنماجاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے باغی
مولانا عبیداللہ انوررحمۃ اللہ علیہ
ناظم اعلی جمعیت علماء اسلام پاکستان
تاریخ پیدائش:1923 تاریخ وفات :1985ء
ولادت اورتعلیم
مولانا عبیداللہ انور 1923ء کو امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے ہاں لاہور میں پید اہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر میں اپنے والد سے پائی۔ قرآن مجید قاری عبدالکریم صاحب سے پڑھا۔ پرائیویٹ حیثیت سے پرائمری سکول کے امتحان میں شریک ہوئے۔ حضرت لاہوری نے اول آنے پر منہ مانگا انعام دینے کا وعدہ فرمایا۔ چنانچہ آپ اول آئے اور انعام طلب کیا۔ انعام کیا تھا، دو عام استعمال کی اشیاء اور دیوبند علی گڑھ جامع مسجد دہلی اور ندوۃ العلماء کی زیارت۔ چنانچہ آپ کو ان چاروں مقامات کی سیر کے لئے بھیج دیا گیا۔ آپ دہلی، علی گڑھ سے دیوبند پہنچے تو وہاں کے ماحول سے اس قدر متاثر ہوئے کہ وہیں ٹھہرنے کا ارادہ کر لیا۔ کچھ عرصہ مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں بھی پڑھتے رہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی جب طویل جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئے تو دارالعلوم دیوبند میں آپ ہی کے کمرے میں رہائش رکھی اور آپ حضرت سندھی کے سفر حضر کے خادم بن گئے۔ اس طرح آپ کو حضرت سندھی سے مستفید ہونے کا خوب موقع ملا۔
فراغت کے بعد
تعلیم سے فراغت کے بعد آپ حج کے لئے تشریف لے گئے۔ حج سے واپسی پر عصری علوم کے حصول کے لئے جامعہ ملیہ تشریف لے گئے۔ اسی دوران ملک کا بٹوارہ ہو گیا اور آپ کو واپس آنا پڑا۔
درس وتدریس اور کاروبار
واپسی کے بعد آپ نے مولانا محمد صادق کے مدرسہ مظہر العلوم کھڈہ کراچی میں تدریس کا آغاز کیا اور بعض دوستوں کے اشتراک سے کاروبار شروع کیا۔ پانچ سال بعد حضرت لاہوری نے لاہور طلب کیا۔ لاہور آکر والد صاحب کی معاونت کا فریضہ سنبھالا۔
مختلف خدمات 1964ء کے صدارتی انتخابات میں جمعیت علماء اسلام نے ایوب خان اور فاطمہ جناح کے مقابلہ کے لئے آپ کو صدارتی امیدوار نامزد کیا۔ 1970ء میں آپ نے لاہور سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا مگر کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ 1973ء کو متحدہ جمہوری محاذ قائم ہوا تو آپ صوبہ پنجاب کے صدر قرار پائے۔ 1974ء کو قادیانیوں کے خلاف مجلس عمل وجود میں آئی تو آپ صوبہ پنجاب کے صدر مقرر ہوئے۔ 1974ء میں آپ نے بلغاریہ امن کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ 1977ء میں بھی آپ نے لاہور سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا، ووٹ آپ نے حاصل کئے لیکن جیت پی پی پی کے امیدوار کی ہو گئی۔ 16؍ مارچ 1977ء کو لاہور میں آپ کی زیر قیادت نکلنے والے جلوس پر پولیس نے فائرنگ کی، 17 افراد زخمی ہوئے۔
جمعیت علماء اسلام کی امارت
1968ء کو جمعیت علماء اسلام نے لاہور میں کل پاکستان تین روزہ کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس میں آپ کو جمعیت علماء اسلام مغربی پاکستان کے امیر اور کل پاکستان کا نائب امیر مقرر کیا گیا۔ ایوبی آمریت کے خلاف چلنے والی تحریک کے لئے یہ کانفرنس نقطہ آغاز بنی جس میں پانچ ہزار علماء اس وقت شریک تھے۔
(الجمعیۃ جون 2008)
متحدہ جمہوری محاذکی صدارت
مولانا عبیداللہ انور متحدہ محاذ پنجاب کے صدر تھے متحدہ جمہوری محاذ نے جب اگست1973 کو بحالیٔ جمہوریت کے لئے تحریک چلانے کا فیصلہ کیامحاذکے سینکڑوں کاکن پسِ دیوار زنداں چلے گئے۔مولانا عبیداللہ انور نے اس تحریک کوپورے پنجاب کے اہم شہروں میں منظم کیاکریڈٹ حاصل کرنے کی شوقین ایک جماعت نے یہ کہہ کر گرفتاریاں پیش کرنے سے انکار کردیا کہ ابھی گرفتاریاں پیش کرنے کا موسم نہیں۔حالانکہ یہاں تومدت سے طوق ودار کا موسم تھا ۔آخر آپ کو گرفتار کرلیاگیا اور چند روز بعد رہاکردیا گیا۔ (مولانا عبیداللہ انور شخصیت اور جدجہد106)
جمعیت کا اتحاداور ناظم عمومی کا عہدہ
حضرت مفتی محمود ؒ کی وفات کے بعد جب جمعیت علمائے اسلام دودھڑوں میں تقسیم ہوگئی تو اکابر علمائے کرام کی کوششیں جاری رہیں کہ جمعیت کو دوباری منظم اور فعال کیا جائے1984کو ان اکابر کی کوششوں سے مصالحت عمل میں آئی جس کے تحت حضرت مولانا عبیداللہ انور مرکزی ناظم عمومی جبکہ مولانا فضل الرحمن ناظم اول مقرر کئے گئے اور بات آگے بڑھنے لگی اسی اثنا ء میں مولانا عبیداللہ انور کا انتقال کاہوگیااور پھر ختلافات شروع ہوگئے۔(مولانا فضل الرحمن کا سیاسی سفر1-50)
وفات وتدفین
28؍ اپریل 1985ء کو جانشین حضرت لاہوری حضرت مولانا عبیداللہ انور، لاہور میں سفر آخرت پر روانہ ہوئے۔اور لاہور ہی میں آسودہ خاک ہوئے
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب