قائد قافلہ حریت امام الاولیاءشیخ التفسیرحضرت مولانااحمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ
ولی کامل تحریک ریشمی رومال اور تحریک آزادی ہند کے عظیم مجاہد امیر جمعیت علماء اسلام
پیدائش 1887 وفات1962
ولادت اور تعلیم
مولانا احمد علی لاہوری بروز جمعہ 2 رمضان المبارک 1304ھ کو ضلع گوجرانوالہ کے جلاں نامی قصبہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام شیخ حبیب اللہ تھا ۔ ابتدائی تعلیم گھر میں والدہ سے حاصل کی پھرگوجرانوالہ میں ایک درویش صفت بزرگ صورت مولانا عبدالحق سے تعلیم حاصل کرنے لگے اسی دوران حضرت مولانا عبیداللہ سندھی وہاں تشریف لائے ۔ آپ کے والد محترم مولانا عبیداللہ سندھی کے قریبی رشتہ دار تھے ۔لہذا آپ کے والد نے آپ کو مولانا سندھی کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا ہم نے یہ لڑکا دین اسلام کی خدمت کیلئے وقف کر رکھا ہے اس طرح آپ حضرت سندھی کی شاگردی میں آ گئے ۔ مولانا احمد علی لاہوری حضرت سندھی کے ساتھ امروٹ شریف سندھ میں بطور طالب علم پانچ سال رہے حضرت امروٹی کی زیر تربیت اللہ اللہ کرنے والوں کی جماعت تھی ۔ ان کی زندگی اور اصحاب صفہ کی زندگی میں بڑی حد تک مشابہت پائی جاتی تھی لنگر میں جو کچھ اللہ تعالیٰ بھیج دیتا تھا وہی ان لوگوں کی شبانہ روز خواراک ہوتی تھی ۔ بعض اوقات دونوں وقت فاقہ ہوتا تھا بعض اوقات سوکھی روٹیاں چبائی جاتی تھی۔
درس و تدریس :
فراغت کے بعد حضرت سندھی کے حکم پر مدرسہ دارالارشاد میں بحیثیت مدرس درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ مولانا سندھی کے دیوبند اور دھلی میں اقامت کے دوران دارالاشاد کا انتظام بھی مولانا احمد علی لاہوری کے پاس رہا اس کے بعد آپ نے نواب شاہ میں حضرت سندھی کے دو شاگردوں مولانا عبداللہ لغاری اور مولانا صالح محمد کے تعاون سے ایک دینی مدرسہ قائم کیا ۔
جمعیت الانصار دارالعلوم دیوبند کی تاسیس میں حصہ
حضرت مولانا عبیداللہ سندھی رحمتہ اللہ علیہ گوٹھ پیر جھنڈا ضلع نواب شاہ سے دوبارہ دارالعلوم دیوبند ( ہندوستان) چلے گئے اور وہاں جمعیت الانصار کی بنیادرکھی ۔ حضرت مولانا سندھی رحمتہ اللہ علیہ خود تحریر فرماتے ہیں۔
1909میں حضرت شیخ الہند رحمتہ اللہ علیہ نے مجھے دارالعلوم دیوبند طلب فرمایا اور مفصل حالات سن کر دیوبند رہ کر کام کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اس کے ساتھ سندھ کا بھی تعلق قائم رہے گا۔ میں چار سال تک جمعیتہ الانصار میں کام کرتا رہا۔ اس جمعیتہ کی بنیاد رکھنے میں مولانا محمد صادق سندھی ، مولانا ابو احمد اور عزیزی احمد علی (لاہوری) میرے ساتھ شریک تھے ۔ جمعیت الانصار کا مقصد ملک اور بیرون ملک میں موجود فضلائے دیوبند کومنظم کرنا تھا حضرت مولانا سندھی رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے رفقاء کار کی کوششوں سے جمعیت الانصار بے حد مقبول ہوئی ۔ 15۔17اپریل1911ء کو مرادآباد میں جمعیت الانصار کے زیر اہتمام جلسے منعقد ہوئے جن میں تقریباً تیس ہزار مسلمانوں نے شرکت کی۔اتنا عظیم اجتماع پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
تحریک خلافت میں حضرت لاہوری کاکردار
مولانا محمدشریف جالندھری رحمہ اللہ فرماتے ہیںہم سے پہلے اللہ والے جو آئے وہ کام کرگئے ہم سے تو کچھ ہی نہیں ہورہا ،تحریک خلافت کازمانہ تھا اس میںحضرت لاہوری بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے انگریز کے خلاف اس تحریک میںکام کرنا انتہائی مشکل تھا ۔مولانا احمد علی لاہوری تحریک خلافت صوبہ پنجاب کے صدر تھے ان کی ذمہ داری جماعت کیلئے چندہ فراہم کرنا قرارپائی اللہ کا یہ نیک بندہ دن کوجماعت کاکام کرتااور،رات کو اللہ کے حضورسجدہ ریز ہوکر گڑگڑاتااور دعائیں مانگتااے بارِالہاہم سے جو کوتاہی ہوگئی ہے معاف فرماانہوں نے اللہ کے ایک نیک بندے کو منتخب کیاکہ وہ چندہ اکٹھا کرے ۔وہ خدا کا بندہ دو بندر لئے ’’گائوں گائوں‘‘ بستی بستی ‘‘نگرنگر’’گھومتا دن کو بندروں کاتماشا دکھا تا اور، رات کو گائوں کے باہر کسی گھنے درخت کے نیچے ڈیرہ جمالیتااس گائوں میں جماعت سے متعلق علما کو جب علم ہوتا کہ بندر والا گائوں میں آیا ہے تو رات کواس وقت جب گائوںوالے گہری نیند سوئے ہوتے اپنے کسی خاص آدمی کے ہاتھ روپوں کی تھیلیاں بھیج دیتے وہ شخص تھیلی وصول کر لیتا اور فجر کی نماز کے بعد اگلے گائوں روانہ ہوجاتا (تحریک کشمیرسے تحریک ختم نبوت تک359 )
سول نافرمانی اور حضرت لاہوری کی گرفتاری،
1931کومجلس احرار نے کشمیر کے مسئلے پر سول نافرمانی کی تحریک شروع کی۔امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری 15،اکتوبر 1931کو گرفتار ہوگئے۔ اس کے بعد مجلس احرار نے ڈکٹیٹرمقرر کرکے گرفتاریاں دینے کا سلسلہ شروع کیا ان دنوں تحریک احرار کے چھوتے ڈکٹیٹر مولانا احمدعلی لاہوری تھے ۔حضرت لاہوری کو13نومبر1931کی رات 2بجےان کے گھرشیرانولہ گیٹ سے گرفتارکرلیاگیا اس وقت سول نافرمانی کی تحریک میںپندرہ ہزار سے زائد رضاکار گرفتار ہوچکے تھے ۔
(کاروان احرار،1/224)
جمعیت علمائے اسلام کی قیادت
1956میں جمعیت علمائے اسلام پاکستان کاقیام عمل میں آیاجس کے لئے حضرت مولانااحمدعلی لاہوری کو امیر اور مولانا احتشام الحق تھانوی کو ماظم اعلی منتخب کیاگیا۱۹۵۳کی تحریک ختم نبوت میں مولانا حتشام الحق تحریک سے الگ ہوئے دوسری طرف حکومت کی طرف سے تمام اکابر علماء کرام کوگرفتار کرکے جیلوں میں بند کر دیاگیا 1954 کو ایک بار پھر انتخاب عمل میں لایا گیا حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب (جامعہ اشرفیہ) امیر منتخب ہوئے۔مفتی صاحب نے ضعف وعلالت کی وجہ سے حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب (دارالعلوم کراچی) کوقائم مقام امیر مقررکیالیکن یہ جماعت بھی بوجوہ فعال کردار ادانہ کرسکی ۔1956کو ملتان کی علماء کنونشن میں جمعیت علمائے اسلام کی نئی تنظیم سازی ہوئی جس میں حضرت مولانااحمدعلی لاہوری کوامیراور حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی کو ناظم اعلی منتخب کیا گیا
مرکزی مجلس عاملہ کے فیصلے اور قراردادیں
16جون1958ء کو لاہور میں امیر مرکزی مولانا احمد علی صاحب کی صدارت میں مجلس عاملہ کا اجتماع منعقد ہوا۔ دو دن اس کے اجلاس ہوتے رہے۔ ان اجلاسوں میں مختلف مسائل پر ۳ قرار دادیں منطور کی گئیں ۔ اور متعدد فیصلوں میں ایک فیصلہ یہ بھی کیاگیا کہ1956کے پاکستان کے دستور میں جو غیر اسلامی دفعات ہیں ان کی نشاندہی کرکے ان کی جگہ اسلام کے مطابق ترمیمات تیار کی جائیں اور انہیں ایک رپورٹ کی صورت میں مکمل کیا جائے ۔
کمیٹی
اس مقصد کے لئے ایک کمیٹی مولانا شمس الحق صاحب افغانی ، مولانا مفتی محمود، شیخ حسام الدین اور علامہ خالد محمود پر مشتمل مقرر کی گئی اور طے کیاگیا کہ22/23جون کو مردان میں یہ حضرات جمع ہو کر اس کام کو مکمل کریں ۔ کمیٹی نے مولانا مفتی محمود صاحب کو رپورٹ تیار کرنے کا اختیار دیدیا چنانچہ مفتی صاحب نے 1956کے دستور پر ایک فاضلانہ رپورٹ مرتب کی جو کتابی صورت میں تنقیدات و ترامیمات کے نام سے شائم ہوئی ۔(عہدسازقیادت66)
وفات اورتدفین
18 رمضان المبارک1381ھ23فروری1962آپ نے دنیائے فانی رحلت فرمائی اور لاہورکے قدیم قبرستان میانی صاحب میں آخری آرامگاہ پائی
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب