القدس کے مسئلے پر مسلم دنیاکامشترکہ دباؤجاری رہنا چاہیے، تاکہ امریکہ اپنا فیصلہ واپس لے لیں ، مولانا عبد الغفور حیدری

آزر بائیجان :
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفورحیدری مدظلہ نے واضح کیا ہے کہ مٹھی بھر انتہاپسندوں کو اسلام کا تشخص متاثر کرنے نہیں دینگے ایک اللہ ایک نبی، ایک قرآن اور ایک کعبہ کے ماننے والے متحدہوجائیں توکوئی ان کاکچھ نہیں بگاڑ سکتا،القدس کے مسئلے پر مسلم دنیاکامشترکہ دباؤجاری رہنا چاہیے، مسلمان اپنے اندر وحدت پیدا کریں ورنہ یکجہتی کا اصول خواب بن کر رہ جائے گامعمولی تفرقات کو ترک کر کے ایک قوت بننے کے لئے آگے بڑھنا ہو گا ۔ان خیالات کا اظہارانھوں نے آذربائیجان کے دارالحکومت باکومیں آزادریاستوں کی بین المذاہب کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا اجلاس کی صدارت آزربائیجا​ن کے صدرالہام علیو نے کی اجلاس میں‌ پاکستان کی نمائندگی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفورحیدری نے کی ۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالغفورحیدری نے کہا کہ امریکی صدر نے القدس کو اسرائیلی دارالخلافہ قرار دے کر مسلمانوں کی دل آزاری اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ مولانا عبدالغفورحیدری نے کہا کہ 1992ء سے آذربائیجان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں اور اس وقت سے آج تک دونوں ممالک حساس امور پر ایک دوسرے کو بھرپور معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ صدر الہام علیوو کی جانب سے سال 2017ء کو اسلامی یکجہتی کا سال قرار دینے کا اقدام انتہائی قابل تحسین ہے جس کی پاکستان نے بھرپور تائید کی۔ پاکستان آرمینیا کی جارحیت کی بھی شدید مذمت کی ہے جنہوں نے آذربائیجان کے بیس فیصد علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے اور بڑی تعداد میں اسلامی تاریخی عمارات، مقبروں اور مساجد کو مسمار کیا ہے جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان آرمینیا کے ظالمانہ قبضہ کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے آرمینیا کو اس وقت تک بحیثیت ریاست تسلیم نہیں کرے گاجب تک کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے اپنا غیرقانونی قبضہ ختم نہیں کریگا۔ انہوں نے کہا کہ میں پاکستان کی جانب سے اس موقع پر آذربائیجان کی طرف سے جموں و کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف پاکستان کی بھرپور حمایت پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ پاکستان حقیقی معنوں میں آذربائیجان کے ساتھ اپنے برادرانہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور امید کرتا ہے کہ دونوں ممالک سیاسی اور اقتصادی تعاون کی تمام راہوں پر اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ اس اجلاس کے ذریعے اسلامی یکجہتی کی روشنی میں بین المذاہب اور بین الثقافتی بات چیت کے بارے میں ماہرانہ رائے کے حامل تمام فریقین کو اکٹھا کرنے کا اقدام اٹھایا ہے اور اس کانفرنس کا انعقاد ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے جبکہ امریکہ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اس سے ایک ارب پچھتر کروڑ مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔ القدس بلارنگ و نسل اور زبان تمام مسلمانوں کا قبلہ اول ہے جسے اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دے کر جہاں فلسطین سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں کی دل آزاری کی گئی وہاں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ القدس کے مسئلے پر مسلم دنیا کو مل کر دباؤ بڑھانا چاہئے تاکہ امریکہ اپنا فیصلہ واپس لے لیں۔ مسلمان اپنے اندر وحدت پیدا کریں ورنہ تنگ نظری پر مبنی نظریات اور فرقہ ورانہ تقسیم کی وجہ سے یکجہتی کا اصول خواب بن کر رہ جائے گا۔ ہمیں معمولی تفرقات اور دنیاوی فائدوں کو ترک کر کے ایک قوت بننے کے لئے آگے بڑھنا ہو گا۔ ہمیں اپنے معمولی اختلافات کو چھوڑ کر تمام عقائد اور ثقافتوں کے مابین افہام و تفہیم سے آگے بڑھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اسوئہ حسنہ کو ہر مسلمان اپنی زندگی کا معمول بنائیں۔ اسلام امن محبت بھائی چارے کا درس دیتا ہے ہمارے نبیۖ دنیا کے لئے رحمت بن کر آئے ۔ اسلام نے ہمیشہ محبت امن اور بھائی چارے کا درس دیا ہے جو لوگ اسلام کا نام لے کر انسانوں کو قتل کرتے ہیں۔ اسلام ایسے کردار کی نفی کرتا ہے۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ نے کہا کہ میری نظر میں ایک صحت مندانہ بین المذاہب بات چیت کو فروغ دینے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ہم خود کو قومیت نسل ملک یا ثقافت سے بالاتر ہو کر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انسانیت کے خدمت کے لئے آگے بڑھ کر کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم دنیا میں مٹھی بھر انتہاپسندوں کو اسلام کا تشخص متاثر کرنے نہیں دینگے اور مسلمانوں کے مابین ہم آہنگی کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ پارلیمانی اراکین اور معاشرے کے تمام اراکین کو چاہئے کہ وہ افہام وتفہیم کے فروغ کے لئے بات چیت کے ذریعے مختلف فرقوں کی ذہن سازی میں کردار ادا کریں۔ ہمیں فرقہ وارانہ اور معمولی تنازعات کو ختم کر کے آگے بڑھنا چاہئے۔ دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گھر کی اصلاح کرنی چاہئے۔ باہمی تعاون اور یکجہتی سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی میں اس کانفرنس کے انعقاد پر حکومت آذربائیجان اور منتظمین کانفرنس کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس کانفرنس کے ذریعے مسلم ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید فروغ ملے گا۔